چین کی جانب سے پیش کردہ ”بیلٹ اینڈ روڈ” انیشیٹو جسے مختصراً بی آر آئی بھی کہا جاتا ہے، رواں برس 8 سال مکمل ہوچکے ہیں۔سن دو ہزار تیرہ میں چینی صدر شی جن پھنگ نے عالمی سطح پر رابطہ سازی کے فروغ کے لیے یہ تصور پیش کیا تھا جسے آج بین الاقوامی حلقوں میں اشتراکی ترقی کا عمدہ نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ آٹھ سال کی محنت کے بعد ” بیلٹ اینڈ روڈ ” کا بنیادی ہدف مکمل ہو چکا ہے اور یہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔اس عرصے کے دوران رواں سال اگست تک چین نے پاکستان سمیت 172 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مشترکہ طور پر ”دی بیلٹ اینڈ روڈ” کی تعمیر کے حوالے سے 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ یوں اس وقت بی آر آئی ایک مقبول ترین بین الاقوامی عوامی پروڈکٹ اور دنیا کا سب سے بڑا تعاون پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
کویڈ19کی وبا کے شدید اثرات کے باوجود ” بیلٹ اینڈ روڈ” کی تعمیر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، جس نے عالمی برادری کو بھی طاقت اور اعتماد دیا ہے، اور وبا کے خلاف عالمی تعاون اور معاشی بحالی میں اہم شراکت کی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ بی آر آئی میں دنیا کی دلچسپی مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اسے مختلف بین الاقوامی حلقوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے ”جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات ” کے تصورات کو اقوام متحدہ،جی ٹونٹی،ایپیک،شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس سمیت دیگر اہم کثیرالجہتی پلیٹ فارمز کی دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے۔ چین نے گزشتہ آٹھ سالوں میں ” بیلٹ اینڈ روڈ” کی مشترکہ تعمیر کے لیے شراکت دار ممالک کے ساتھ تعاون کے نئے باب رقم کیے ہیں،وہاں بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے رابطہ سازی کو مسلسل فروغ دیا ہے، اورباہمی مفادات پر مبنی تعاون کے حوالے سے مثبت پیش رفت سے متعلقہ ممالک کے لیے ٹھوس ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین اور بی آر آئی کے شراکت دار ممالک کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 9.2 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ ”بیلٹ اینڈ روڈ ” سے وابستہ ممالک میں چینی کاروباری اداروں کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، یوں اس وقت دنیا کے وسیع اور عظیم ترین بین الاقوامی تعاون پلیٹ فارم کی حیثیت سے ”بیلٹ اینڈ روڈ” انیشیٹو نے مختلف ممالک اور خطوں کو باہمی سود مند تعاون اور مشترکہ ترقی کا نیا موقع فراہم کیا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو چین۔پاک اقتصادی راہداری کو بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔اس وقت سی پیک کے تحت پاکستان میں بنیادی ڈھانچے سمیت مختلف منصوبہ جات پر تیزی سے کام جاری ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں 25 ارب ڈالرز سے زائد کی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی ہے اور 70ہزار سے زیادہ براہ راست روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، اس سے بلاشبہ مقامی لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری اور پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو مضبوطی سے فروغ دیا گیا ہے۔پاکستان میں توانائی کی قلت پر قابو پانے میں بھی سی پیک نے اہم کردار ادا کیا ہے اور توانائی کے مختلف منصوبوں کی بدولت ملک میں کافی حد تک لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔توانائی منصوبوں کے علاوہ نقل و حمل جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ چین کی معاونت سے تعمیر شدہ میٹرو ٹرین اور شاہراہوں کی بدولت ملک کے مختلف شہروں کے درمیان آمدورفت میں نمایاں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں جس سے ملک کی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا گیا ہے۔اس وقت سی پیک کی تعمیر دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ باہمی تعاون کا دائرہ مزید وسیع ہو چکا ہے۔ صنعت، زراعت،انفارمیشن ٹیکنالوجی، صحت اور ثقافت سمیت دیگر شعبہ جات سی پیک تعاون کے ڈھانچے میں شامل ہو چکے ہیں۔
اسی طرح دیگر دنیا بھی بیلٹ اینڈ روڈ تعاون سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھا رہی ہے۔ چین۔یورپ ایکسپریس ریل کی ہی بات کی جائے تو اسے انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد سروس کا درجہ حاصل ہے۔ چین اور یورپ کے درمیان آنے جانے والی ایکسپریس ٹرینوں کی تعداد 12500 تک جاپہنچی ہے۔ کارگو ٹرانسپورٹ کے کل حجم میں 56 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وبائی صورتحال میں چین۔یورپ ریلوے ایکسپریس نے” زندگی کا کوریڈور ” کھولتے ہوئے مجموعی طور پر انسداد وبا کا 99000 ٹن امدادی سازو سامان یورپی ممالک تک پہنچایا ، جس نے بین الاقوامی انسداد وبا میں مثبت شراکت کی ہے۔ غربت سے نجات، معاشی ترقی کا فروغ اور بہتر زندگی کی جستجو ، دنیا کے تمام ممالک کی مشترکہ خواہشات ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو عالمی سطح پر وسیع پزیرائی اور نمایاں حمایت حاصل ہے۔پاکستان سمیت دیگر شراکت دار ممالک کو بی آر آئی کی بدولت باہمی سود مند تعاون اور اشتراکی ترقی کے مواقع میسر آ رہے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہی ” مشترکہ مفادات” پر مبنی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔