برصغیر میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی،بہت سے نشیب و فراز آئے لیکن اس سب کے باوجود ان کی یہی کوشش رہی کہ اپنی شناخت پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں دوسری قوموں کو مذہبی آزادی بھی دی انھیں کے حقوق کا مکمل تحفظ بھی فراہم کیا مگر ان کی اور اپنی شناخت کو کبھی گڈ مڈ نہ ہونے دیں اور ان کے اور اپنے دین کو ملا کو کوئی مشترکہ تہذیب نہ بنائیں۔لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں مختلف حلقوں کی جانب سے جو کوششیں بھی ہوئیں وہ ناکام رہیں چاہے وہ سرکاری قوت کا استعمال ہو ،سیکولر جماعتوں کی طرف سے یا مذہبی جماعتوں کی کاوشیں ۔
بیسویں صدی کی سیاسی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے تو سید احمد شہید کی قیادت میں تحریک مجاہدین ،دارالعلوم دیو بند اور ندوت العلماء،سرسید احمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک،1906میں مسلم لیگ کا ایام،تحریک خلافت اور پھر تحریک پاکستان اپنے اپنے انداز میں مسلم شناخت کو برقرار رکھنے کی کوششیں کی گئیں ایک طویل مدت تک تمام اقوام کے اتحاد کے سائے میں ان سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی جن میں مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت بھی ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن بھی رہیں۔
1905 سے لے کر 1940 تک کی جدوجہد کے ہر مرحلے پر واضح کیا گیا کہ مسلمان بحیثیت قوم جداگانہ انتخابات اور تہذیب و تعلیم،زبان اور مذہبی حقوق کی حفاظت کا پورا حق رکھتے ہیں لیکن کانگرس اور برطانوی حکومت کی ملی بھگت ان کے دوغلے کردار نے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ دی کہ ان کی قومی شناخت ،ان کی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات کی حفاظت و ترقی کسی بھی مشترکہ سیاسی انتظام سے ممکن نہیں۔
تحریک پاکستان کا مقصد جہاں انگریز اور ہندوؤں دونوں سے نجات حاصل کرکے ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا وہیں اس کا اصل ھدف پاکستان کو آئینی اسلامی فلاحی ریاست کا درجہ دینا تھا تاکہ دین اور تہذیب کی بنیاد پر استوار ہونے والی قوم کو جب آذاد ملک کی نعمت میسر آئے تو نظریاتی حیثیت کی بنیاد پر بننے والی ریاست مثالی ریاست بن سکے جس میں نہ صرف اسلام اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکے بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور غور کریں تو یہ تمام اصول قرآن میں موجود ہیں تو ثابت ہوا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کا آئین (قرآن مجید)طے شدہ ہے۔قائداعظم نے صاف اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
مسلمانو ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے۔ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔”
امید ہے قائد اعظم کے یہ تاریخی الفاظ اس طبقہ کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہوں گے جو قائد اعظم جیسی عظیم شخصیت کو سیکولر بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔پاکستان اللّٰہ رب العزت کے نام پہ بنا ہے حالات چاہے کتنے ہی خراب ہوں مگر اسلام کا یہ قلعہ قائم رہے گا کیونکہ اس ملک میں آج بھی حقیقی معنوں میں اسلام کے نام لیوا موجود ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو موجودہ حالات سے غیر مطمئن ہیں اس بگاڑ کو اصلاح میں بدلنا چاہتے ہیں تو وہ مل کر اس سیاسی نظام کو آئین اسلام کے تحت لانے کے لیے سرگرم ہو جائیں اور اس کے لیے عوام کی تائید ضروری ہے تاکہ اقتدار ایسی قیادت کو سونپا جائے جس کا دامن پاک ہو ۔اعلی صلاحیتوں کی حامل ہو ،جو عوام کے مسائل کو حقیقی معنوں میں سمجھے اور ان کے حل کے لیے کوششیں کرے ۔منزل ہماری منتظر ہے بس ہمت اور لگن کی ضرورت ہے۔