اے اولاد آدم “ہم نے تم پر لباس نازل کیا کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیےجسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ سبق لیں۔”
یہ اللہ پاک کی جانب سے ایک درد انگیز پکار ہے اور یہ پکار تخلیق انسانیت کی کہانی کے منظر کے بعد آئ ہے۔ خصوصا” اس کے اس حصے کے بعد جس میں شیطان کی سازش سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے جسموں سے جنت کا لباس اتار دیا گیا اور جس میں دونوں اس طرح دکھائی دیتے تھے کہ وہ اپنے جسموں کے اوپر جنت کے پتوں کوچسپاں کر رہے تھے ۔ یہ دن انہیں اللہ کی حکم عدولی کرنے کی وجہ سے دیکھنے پڑے تھے کیونکہ انہیں ایک خاص درخت کا پھل کھانے کی صریح ممانعت کی گئی تھی۔یہ ایک لغزش تھی جس کی تفصیلات اہل کتاب کی منحرف کتابوں تورات اور انجیل کے اندر موجود ہیں اور جن کا عکس آج مغرب کے تمام علوم وفنون پر صاف نظر آتا ہے۔
دور جدید میں فرائڈ کے افکار اس پر مستزاد ہیں۔ان اساطیر اور فضول قصوں میں یہ کہا گیا ہے کہ شجر ممنوعہ شجر علم تھا اور شجر حیات تھا اور اگر آدم و حوا اس کا پھل کھا لیتے تو اللہ کو یہ ڈر تھا کہ وہ بھی خدا کی طرح الہہ بن جاتے۔ جس طرح فرائڈ اور مغربی علوم و فنون اور مغربی آرٹ اس بات کا انعکاس کرتے ہیں اور انہوں نے ان کہانیوں کی اساس پر جنسی بےراہ روی کا فلسفہ فرائڈ کے خیالات کی شکل میں اپنا رکھا ہے۔
غرض حضرت آدم کی لغزش کے نتیجے میں ان کے لباس کے اتر جانے کے منظر اور پھر دور جاہلیت میں عریانی کی حالت میں طواف کرنے کی صورت حال کے پیش نظر یہ پکار آتی ہے کہ اے انسان اللہ نے تم پر کس قدر رحمت اور شفقت لی ہے کہ تمہاری زینت اور شرم گاہوں کو چھپانے کے لیے لباس کا انتظام کیا ہے اور اس کواپنی نشانی قرار دیا ہے، اور اسے تمہارے ستر کے لیے لازمی قانون کی شکل دی اور انسان کتنا خوش قسمت ہے کہ اللہ پاک نے اپنی نشانی کو لازمی اخیتار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اگر لباس نہ ہوتا تو انسان برہنگی کی حالت میں نہایت مکروہ نظر آتے۔ *انزلنا* کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس بطور قانون لازمی ہے ۔لباس کا اطلاق کبھی تو ستر ہوتا ہے، یعنی داخلی ستر اور ریاش کا اطلاق اس لباس پر ہوتا ہے جو زیب و زینت کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی ظاہری لباس، ریاش کے معنی ہیں عیش و عشرت اور مال ودولت۔ان سب معنی کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور یہ لازم وملزوم ہیں۔
ظاہری لباس کے ساتھ ساتھ ایک باطنی لباس بھی انسان کو عطا ہوا ہے اور وہ تقوی کا لباس ہے جو اس ظاہری لباس سے کہیں بڑھ کر ہے ،اس لیے کہ یہ تقوی کا لباس ہی ہے جو ظاہری لباس کی بھی حقیقی افادیت کو نمایاں کرتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو آدمی اس ظاہری لباس کو اختیارکرتا ہی اپنے اس باطنی لباس کی تحریک سے ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو آدمی کپڑے پہن کر بھی بے لباس ہی رہتا ہے اور اس کے لباس سے اس کے وقار میں اضافہ ہونے کے بجائے اس کی رعونت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس کی بدکرداری میں۔
جو لباس انسان کو اختیار کرنے کو کہا گیا ہے وہ تقوی، حیا، خشییت الہی اور احساس عبدیت سے بنتا یے اور جس کے قامت پر اللہ اپنی عنایت کی یہ ردا ڈال دیتا ہے دیکھنے کے قابل وقار اور جمال اسی کا ہوتا ہے۔ جو بھی ایسا لباس اختیار کرتا ہے جس میں حیا ہو، زینت ہو، تقوی ہو،اور بہترین وقار اور ستر پوشی ہو وہی لباس ہماری تہذیب ہے۔ ایسے ہی لباس کو اللہ نے اپنی نشانی قرار دیا ہے۔
جسم کا چھپانا فطری حیا ہے۔اس کا تعلق محض کسی خاندان اور معاشرے کے رواج کے ساتھ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ اس کاڈھنڈورا پیٹتے ہیں جو اسلامی معاشرے سے حیا کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں سے انسانیت ختم کر دیں۔
اللہ پاک نے لباس اور ستر پوشی کا قانون دے کر انسان پر ایک عظیم رحمت کی ہے۔اس طرح اللہ نے ان کی قیمتی متاع انسانیت کو اس انجام سے بچایا ہے کہ وہ حیوانات کی سطح تک نیچے چلی جائے۔
انسان خاص کر مسلمان کو اچھی طرح سمجھ لینا جاہیے کہ زیب و زینت، فیشن، اور عریاں لباس یہودی سازش کے عین مطابق ہے جو انہوں نے انسانیت کی تباہی کے لیے تیار کر رکھی ہےحالانکہ انسان کے لیے زینت عریانی میں نہیں ستر میں پوشیدہ ہے۔یہ حیوانات کی زینت ہے کہ وہ ننگے رہیں ، لیکن آج کا انسان جاہلیت کی طرف لوٹ رہا ہے۔
آج کل نسانوں کی اکثریت لباس پہن کر بھی بے لباس ہے جس میں ستر پوشی نہیں ہے تو پھر تقوی کا کیا سوال۔اللہ پاک اس روش سے بچائے اور مسلمان اللہ کے حکم کی طرف آجائیں۔دین اسلام کی بنیاد اور تقوی کا لباس اختیار کریں تو خود ہی زیب و زینت اور ستر پوشی بھی ہو جائے گی کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے۔