پہلے یہ تھا کہ انہونے واقعات کبھی کبھی رونما ہوتےاور طبیعت و سماعت پر گراں گزرتے تھے ان کا اثر فرد سے لے کر خاندان اور پھر معاشرے پر پڑتا اور پھر کئی ہاتھ بھی اصلاح کے لئے موجود رہتے جس سے معاشرہ کسی حد تک سدھار کی شکل اختیار کیے ہوئے تھا۔
مگر اب زمانہ اس نہج پر ہے کہ ایسے واقعات انہونے نہیں رہے بلکہ سچ پوچھیئے تو یہ واقعات اب ہمارے لئے تھرل اور مزے کے سوا کچھ نہیں ابھی حال ہی میں نور مقدم اور مینار پاکستان کا واقعہ اس کی گواہی ہیں۔
کچھ ایماندار اور حساس دل حضرات ضرور ان کا اثر دل پر لے کر افسردہ ہوتے ہیں اور ان کے تدارک کی فکر میں خود کو گھلا رہے ہیں مگر اکثریت پر بے حسی طاری ہے۔یقین نہیں تو سوشل میڈیا پر جا کر دیکھ لیں ادھر واقعہ رونما ہوا نہیں ادھر سب اپنے چینلز کی دکان کھول کر بیٹھ گئے اور لگے بارہ مسالوں کے ساتھ اپنی چاٹ بیچنے!کسی کی بے عزتی دکھ اور نقصان سے کسی کو سروکار نہیں ۔
اگر کوئی صاحب شعور عقل سے حالات اور واقعات کا جائزہ لے تو یہ ایک اندھے کو بھی نظر آجائے گا کہ یہ تو پری پلان کام ہو رہا ہے ایک واقعہ رونما ہوتا ہے اور چینلز مالکان واقعے کےمندرجات کے پیچھے ایسے بھاگتے ہیں جیسے ٹرین جب اسٹیشن پر رکتی ہے اور قلی مسافروں کا سامان ڈھونے کے لیے ٹرین کے پیچھے بھاگتے ہیں کچھ دیر میں رش چھٹ جاتا ہے اور یہ حضرات دوسری ٹرین کا انتظار کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہماری عوام جو پہلے ایسے بے حیائی کے واقعات سن کر دہل جایا کرتی تھی اب ایسی بےحس کیوں کر ہو گئ۔
کلیہ یہ ہے کہ اگر ایک ہی بات کی گردان مسلسل کی جائے تو اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے اور کان اسے سننے کے اور آنکھ اسے دیکھنے کی عادی ہوجاتی ہے اور ہمارے ہاں تو معاملہ یہ بن گیا ہے کہ ایک واقعہ پوری طرح ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوا چاہتا ہے اور پھر کرید کرید کر اگلے پچھلے جھوٹے سچے تمام معاملات کا ٹوکرا الٹ دیا جاتا ہے اور ریٹنگ کے چکر میں نا ملک کی عزت زیر نظر ہوتی ہے نہ فرد کی۔
چلیے ہم غور کرتے ہیں کہ ہمارے ماضی کے رویے اور حالیہ رویوں میں اتنا بدلاؤ کیوں پیدا ہو چکا ہے ۔اس بگاڑ میں اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل کار فرما ہیں گزشتہ دہائی میں جس تیزی سے میڈیا نے ترقی کی ہے وہ قابل دید ہے اور لوگوں نے جس تیزی سے اس کا اثر قبول کیا وہ بھی حیران کن ہے۔
ایک قول ہے کہ خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے نت نئے چینل اور فکری تربیت سے خالی پروگرامات نے ان ذہنوں پر ایسا قبضہ جمایا کے الامان الحفیظ۔ڈراموں اور کمرشلز میں جس قسم کا ماحول دکھایا جارہا ہے کیا یہ ہماری تہذیب ہے ؟کچھ کو چھوڑ کر ہر ڈرامہ رشتوں کا تقدس پامال کرتا دکھائی دے رہا ہے رہی سہی کسر ان ڈراموں میں دکھائی جانے والی ڈریسنگ ہے جس سے ہر عمر کا فرد متاثر دکھائی دیتا ہے دوسری بڑی کوتاہی جو اس ضمن میں ہم سے سرزد ہوئی وہ یہ کہ غیر تہذیبی روایات کے پیچھے اندھوں کی سی تقلید کۓ جارہے ہیں اس کا نتیجہ بھرپور بے حیائی کے مظاہرے گلی گلی گھر گھر نظر میں ہیں اور ہم اسے جدت اور فیشن کا نام دیکر خوش ہیں یہ بے باکی اور مسلم تہذیب سے دوری معاشرے میں بڑھتے جرائم کی بڑی وجوہات نہیں ہیں؟ اور کیا یہ ہماری تہذیب ہے؟ جس قسم کے ڈائیلاگ اور مناظر سے زبان اور آنکھیں تر ہو رہی ہیں اس قسم کی بے حیائی اور بے ہودگی کیا یہ ہمارا شعار ہے؟ حجابی تہذیب گفتگو کے انداز بھی سکھاتی ہے اور نظر نیچی رکھنے کا حکم بھی دیتی ہے۔
دفاتر ،تعلیمی اداروں، تقریبات میں مرد و عورت کا آزادانہ ملاپ یہ ہماری تہذیب نہیں ہے بلکہ یہ مغرب سے متاثر ذہنیت اور اسلامی تہذیب سے دوری کے سبب ہے اور حکومت کا کردار محض خاموش تماشائی کا سا ہے بگڑے ہوۓ کو لگام دینا اور سب کو سیدھی راہ پہ چلانا سراسر حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔ حکومت ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کرے اور محض بے حیائی کی نشاندہی کرکے خاموشی اختیار کرلے؟ اس کے ہاتھ میں طاقت ہے اور طاقت ہر بگڑا کام کروانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ہم اللہ کے غلام ہیں اپنی زندگیوں میں خود مختار کیسے ہو سکتے ہیں۔اسلامی تہذیب مکمل ضابطہ حیات ہے اسے ہم جب جب چھوڑیں گے اور تغافل برتے گے تو پھر زینب، نور مقدم ،اور مینار پاکستان جیسے واقعات ہوتے رہیں گے اس لئے شدّت کے ساتھ پلٹنے کی ضرورت ہے۔