حجاب تہذیب کی بنیاد ہے

حجاب ایک خوبصورت روایت ہے جو صدیوں سے ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بلاتخصیص مذہب عورتوں میں پردے کا رواج موجود رہا دیہاتوں اور شہروں میں ہر جگہ عورتیں چادر سے پورے جسم کو ڈھانپ  کر ہی اپنےکام انجام دیتی چلی آئی  ہیں۔  ہندوستان میں جہاں عورتیں  ساڑھی استعمال کرتی ہیں  وہاں بھی ساڑھی کے پلو سے  گھونگھٹ نکال کر چہرہ  تک چھپانے کا رواج ہے۔

اسلام میں تو یہ ایمان کا  جزو ہے کہ عورت اور مرد حیا داری برتیں عورتیں نا محرم مردوں کے سامنے  اپنے پورے جسم اور زیب و آرائش  کو چھپانے کی پابند ہیں۔ حجاب اور پردہ داری کے اسی رواج سے معاشرے میں خاندانی نظام کو استحکام حاصل رہا ۔ عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط نہ ہونے کی وجہ سے مرد  اپنے میدان میں طاق رہے اور عورتیں اپنے فرائض خانگی میں ماہر ٹھہریں۔ نسلوں کی پرورش بہترین طریقے سے ہوتی رہی، اخلاقی اقدار  پروان چڑھتی رہیں،  ایک دوسرے کا ادب لحاظ برقرار رہا ، لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ،ایک دوسرے کی مدد کرتے  برائیوں کا مقابلہ مل جل کر کرتے مائیں بہنیں سانجھی تھیں، بری نظر والے  ڈر کر رہتے  تھے ہر کوئی ایک دوسرے کی عزت کا محافظ تھا غرض  نفسانفسی کا وہ عالم نہ تھا جو آج کل ہے اور شاید یہ حجاب پردے اور حیا داری کی برکات  تھیں جس کی وجہ سے معاشرے میں امن اور سکون میسر تھا خاتون خانہ گھر میں محفوظ اپنے فرائض منصبی سے غافل نہ تھی، مرد سکون سے کام پر جاتے کہ پیچھے ان کی خواتین گھر پر موجود ہوتیں،  بچوں کی تربیت حرکات و سکنات پر بزرگ نظر رکھتے، ان کی تعلیم و تربیت میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنتے اور اپنی آخری عمر میں اپنے پیاروں کی صحبت اور خدمت سے فائدہ اٹھاتے عورتوں کی عزت اور احترام ایمان کا درجہ رکھتی تھی۔

 پھر زمانے نےپلٹا کھایا حکومتیں بدلیں فرنگی دور آ یا تو مغربی تہذیب نے برصغیر میں جگہ بنانی شروع کر دی تعلیم کے نام پر   پردےاور حجاب کو ترک کیا جانے لگا  ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عورتوں کی  ملازمت کو لازمی سمجھا جانے لگا عورتوں کے پردے  کوغلامی کی علامت اور گھر داری کو  دقیانوسی قرار دے دیا گیا ملا زمتوں  میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی حصہ لازمی قرار پایا ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے پردے کو بوجھ اور ان کے فرائض میں رکاوٹ قرار دیکر اس کے خلاف تحریک چلائی گئی اور  جب عورتیں اپنے اس حفاظتی حصار کو چھوڑ بیٹھیں تو معاشرے کا امن اور سکون برباد ہو گیا  عورت نے اپنے پردے اور حجاب کو چھوڑ کر اپنی عزت اور وقار  کو کھو دیا اب وہ مرد کے ساتھ ہر جگہ کام کرنے لگی مردوں کی برابری کا دعوی کر کے اس مقابلے میں شامل ہوگئی جسے وہ کبھی نہیں جیت سکتی تھی۔

 اس مقابلے کی دوڑ میں مرد نے بھی بہت کچھ کھویا  اپنی عزت ، اپناوقار  ،اپنا خاندان ،اپنے بزرگ،  اپنی اولاد کی بہترین تربیت، غرض خدا تعالی نے  عورت اورمرد کو الگ فرائض دےکر جو نظام بنایا تھاحجاب اور پردے کو ترک دینے کے سبب وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حجاب ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظام حیات ہے جو  اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے وضع کیا ہے ۔یہ  ایک نظام حیا داری ہے  جو برائی کو معاشرے میں پھیلنے سے روکتا ہے ۔یہ حکم خداوندی ہے کہ مرد اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اپنی توجہ اپنے فرائض پر  مرکوز کریں اور عورتیں بھی اپنی نظر بچا کر اپنی آرائش اور زیبائش کو اپنے گھروں تک محدود رکھ کر اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف رہیں، اگر وہ ایسا  کریں تو مرد اور عورت دونوں کو ان کے حقوق بخوبی ملتے رہیں گے۔

طلوع اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں حقیر اور کمزور  سمجھا جاتا تھا  پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ میں تہذیب کی  نئی بنیاد رکھی جہاں ہر انسان محترم تھا کمزوروں کو ان کے حقوق دلائے ،طاقتور کو ذمہ دار بنایا ۔عورت کو ماں کی حیثیت سے بلند مرتبہ دیا، ماں کی خدمت کو  جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا ۔

اسلام سے  پہلےعورتیں کھلے عام اپنی  زیب و زینت دکھاتی پھرتی تھیں  جس کے نتیجے میں بری نیت والے مرد ان سے دست درازی بھی کرتے تھے اسلام نے عورتوں کو محترم ٹھہرایا اور حجاب کا حکم دیا تاکہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں اسلام کا یہی اقدام اس پاکیزہ تہذیب کی بنیاد بنا جس میں حیا داری اور ایمانداری کی صفات کو پنپنے کا موقع ملا، اسی تہذیب  نے وہ پاکیزہ اور مضبوط کردار  انسان پیدا کیے جنہوں نے دنیا بھر میں حق  کاآوازہ  بلند کیا اور اسلام کا پرچم لہرا کر دنیا کو انسانیت کی بلند اقدار سے آشنا کیا۔