باجی آپ کا دوپٹہ بڑا ہے۔ میرا دوپٹہ چھوٹا ہے۔ کہنیاں ڈھک ہی نہیں رہی وہ نماز پڑھنی ہے مجھے سمن نے سلام پھیرتے یوں ہی نند کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ہاں ہاں یہ لو مہ جبیں نے فوراً دوپٹہ اتار کر آگے بڑھا دیا اور سمن اسے سر اور ہاتھوں پر لپیٹنے لگی۔
نماز میں سر ڈھکنے کا علم ہم سبھی کو ہےاورسب اس پابندی کامکمل احترام کرنے کی کوشش کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ آفس میں اکثر خواتین اور گھروں میں بھی نماز کے لیے باقاعدہ بڑی سی چادر علیحدہ رکھتی ہیں لباس فیشن کے مطابق پہنتی ہیں۔لیکن نماز کے وقت بڑی سی چادر قرینے سے لپیٹ کر کھلے سر کھلی گردن اور کھلے بازو کو چھپا لیتی ہیں کیونکہ ایسا کیے بغیر نماز قبول نہیں ہوگی۔
لیکن افسوس جب ہوتا ہے جب وہ سلام پھیرتے ہی چادر اتار کرلپیٹ دیں اور سترڈھکنےکی ربانی ہدایات سے اس طرح لاپرواہ ہو جائیں کہ گویا وہ ان کے لئے ہے ہی نہیں۔
اسلامی اقدار کے متعلق ہمارا یہ رویہ صرف نماز کے ساتھ نہیں بلکہ تمام ارکان اسلام کے ساتھ ہے بلکہ اخلاقی اورمعاشرتی اقدار بھی اسی کی زد میں ہے کاروبار اور معاملات میں جھوٹ کی ملاوٹ بالکل اسی طرح بڑی ہوئی ہے جس طرح ہمارے لباس کی تراش خراش میں فیشن نام پر عریانی اور فحاشی بڑی ہوئی ہےیہ حالت لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارا کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ سے شروع ہونے کی وجہ یہی تو ہے کہ پہلےزندگی سے تمام غیراسلامی طرز کو”لا” کی صورت نفی کر دو۔اسلام مکمل طریقہ زندگی لے کر آیا ہے اس لیے ناگزیر ہے کہ اپنے رب کی ہدایت پر نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے لباس اور کردار کو بھی حدود کا پابند بنائیں جسم سے چپکنے والےاور خدوخال کو نمایاں کرنے والے تمام لباس کے انداز ہمارے لئے حرام ہیں ہمیں لازماً ساتر اور باحیا لباس اپنانا ہوگا ساتھ ہی سچ کی عادت امانت داری کی اہمیت کو سمجھ کو اختیار کرنا ہوگا اپنے عہدے اور منصب کو مکمل دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا بھی سیکھنا ہوگا اور زندگی میں گھلے دو رخے پن کو خود سے علیحدہ بھی کرنا ہوگا کاروبار یا سیاست میں ذرا سے مفاد کی خاطر جھوٹ عام ہونا قومی اخلاقی گراوٹ کا اظہار ہے جو ہرگز اسلامی تہذیب نہیں صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیا گیا کہ کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ کیامومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں یہ موتہ امام ملک کی 1630 حدیث ہے۔
سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کو لباس اخلاق اور معاملات کے ساتھ معیشت سیاست کے ساتھ قبول کرنا ضروری ہے ماضی کی طرح آج بھی مسلم کا مطلب وہی فرمانبردار ہے جو اپنی زندگی کا ہر پل فرماں برداری کے ساتھ گزارے صرف نماز میں ستر نہ ڈھکے بلکہ نمازوں کے درمیان میں بھی ستر اور اخلاقی حدود کی مکمل پابندی کرتا رہے۔