مجاہد اسلام سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نےفرمایا تھا ’’ جب تاریخ رقم ہوگی تو لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد سے روس کو شکست دی اور پھر لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکاکے ذریعے ہی امریکا کوشکست دیدی ‘‘۔ آج دو دہائیوں بعد فاتح افغانستان ، مجاہد اسلام جنرل حمید گلؒؒؒ مرحوم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور دنیا کی سپر پاور کہلوانے والا امریکاافغان سر زمین سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔ بلاشبہ افغان طالبان اور امریکا کے مابین طے پایا جانے والا امن معاہدہ جری و بہادر ، غیورجذبہ جہاد سے لبریز افغانی طالبان اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کا مر ہون منت ہے کہ قبل ازیں اسی خطے میں اس وقت کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا تکبر اور غرور خاک میں ملا دیا گیا تھا ۔
آج 20 سال بعدجدید ٹیکنالوجی و مہلک جنگی ہتھیاروں سے لیس اقوام عالم کی نمبر ون عسکری و فوجی قوت کو سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں میں دھول چٹوا دی ۔شکست خوردہ امریکا جو 40 نیٹواتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر بھی افغانستان کو تورا بورہ بنا کر بھی کامیاب نہ ہو سکا۔یہ وہی ہے جس نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر ایک مفلوک الحال غریب ملک کو تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنا چاہا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کو جواز بنا کرنہتے و مظلوم شہریوں کوبربریت کا نشانہ بناڈالا ۔ ان افغانی شہریوں پر مدر بموں سے بمباری کرتے ہوئے تباہی اور بربادی کے ہولناک مناظر دہرائے گئے۔
افسوس دنیا کی تمام قوموں کے محافظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنے والے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھی ظلم ڈھانے میں پورا پورا ساتھ دیا ۔نائن الیون کے بعد نام نہاد سپر پاور نے افغانستان پر فوجی چڑھائی کردی اور ظلم و برریت کی انتہا کرتے ہوئے طالبان کا بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا ۔ ہزاروں سلاخوں کے پچھے دھکیل دئے گئے اور گونتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں میں امریکا کے خلاف جہاد کرنے والوں پر وحشت و درندگی کی تمام حدیں پار کر دیں۔آج وہی طالبان ہیں جنہیںجب کابل سے نکالا جارہاتھا تو بمباری، گرفتاری اور طرح طرح کے مظالم کرکے نکالا گیااور آج طالبان کتنی امن پسندی کیساتھ 20 سال بعد امن اور صلح کے پیغام کے ساتھ کابل میں داخل ہوئے ہیں۔
طالبان نے کابل کو بزور طاقت فتح نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے کابل کا کنٹرول حاصل کیا۔ امارات اسلامی کے اعلامیہ میں طالبان کو کابل کے دروازوں پر کھڑے رہ کر اندر جانے سے گریز کی ہدایت کی گئی جبکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے طالبان نے اعلان کیا جو بھی اپنی غلطی تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دے گا اسکے لیے عام معافی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان کے قبضوں میں مزید تیزی آگئی تھی۔قبل ازیں روس کی شکست کے بعد جہادی گروپوں میں بدگمانیاں پیدا کر آپس میں لڑا دیا گیا تھا بعدازاںطالبان نے پورے ملک میں ملا عمر کی کمان میں امن کے سفید جھنڈے لہراتے ہوئے افغانستان کی خانہ جنگی ختم کی۔ اسلامی روایات کے مطابق سپریم کمانڈرملا عمر کو امیر المومنین تسلیم کرتے ہوئے ہوئے اسلامی امارت کی بنیاد رکھی تھی۔ جسے پاکستان، سعودی عرب اور کویت نے تسلیم کیا۔
طالبان ملک میں امن و امان قائم کیاوار لارڈز سے اسلحہ واپس لیا، پوست کی کاشت ختم کی اپنے پڑو سی ملکوں سے اچھے تعلوقات قائم کیے۔بیرون ملک کہیں بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوئے۔ جن طالبان کو اشرف غنی خونخوار کہہ رہاتھا اسی خطاب کے دوران طالبان کی حاکمیت میں جینے والے لوگ صوبہ ہرات میں طالبان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا گیا ۔ ترجمان طالبان کے مطابق ہمارا کسی سے انتقام لینے کا ارادہ نہیں، اقتدار پرامن طریقے سے منتقل کیا جائے گا، سب کودعوت دیتے ہیں، آئیں مل کر افغانستان کی خدمت کریں۔افغان فوج کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ بتائی جاتی ہے۔ افغان طالبان بمشکل ایک لاکھ ہوں گے۔اپنی کم تعداد کے باوجود وہ جیت رہے ہیں اور رفتار بھی بہت تیز ہے۔۔ اشرف غنی کی افغان حکومت اپنی نااہلی، کرپشن اور بدترین گورننس کی وجہ سے عوام اور افغان فوج میں مقبولیت نہیں رکھتی۔ طالبان کا بڑا کارنامہ افغانستان میںاثر رکھنے والے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے۔طالبان دور حکومت میں ایران ان کا شدید مخالف رہا۔ اب طالبان اور ایران میں کئی برسوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایران کے علاوہ روس، چین، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات بہتر ہیں، ان میں سے کسی ملک نے طالبان کی مخالفت نہیں کی۔
بہترین جنگی حکمت عملی طالبان کی بہت عمدہ ، جامع اور جارحانہ جنگی حکمت عملی نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بیک وقت کئی محاذ کھولے اور ملک کے شمال ، جنوب، مشرق اور مغرب میں حملے کر کے افغان فوج کے فوکس کو منتشر کیا۔ تیزی کے ساتھ اہم سڑکوں پر قبضہ کیا، سپلائی لائن کاٹ دی اور غیر معمولی سرعت کے ساتھ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی روٹس پر کنٹرول سنبھالا اور سرحدوں پر اپنے دستے تعینات کر دئیے تاکہ باہر سے افغان حکومت کو فوجی مدد نہ مل سکے۔ یہ بہت ہی اعلیٰ حکمت عملی تھی، اس نے افغان حکومت کی آپشنز محدود کر دیں اور بھارت جیسے ملک کو بے بسی سے تلملانے پر مجبور کر دیا۔امریکی ماہرین نے افغان فوج کی ٹریننگ پر بہت پیسہ اور وقت خرچ کیا، لوگ صرف تنخواہ کی خاطر نوکر ہوئے، اس لئے مشکل وقت میں وہ بھاگ نکلے۔ تخار اوردیگر شمالی صوبوں میں فتح شمالی افغانستان میں نو صوبے ہیں۔ شمال مشرق میں بدخشاں، بغلان، قندوز اور تخار ہیں۔ ان چاروں صوبوں کے دارالحکومت پر قبضہ ہوچکا ہے۔ بدخشان کا دارالحکومت فیض آباد ، بغلان کا دارالحکومت پل خمری ، قندوز کا دارالحکومت قندوز اور تخار کے دارالحکومت تعلقان پر بھی طالبان کا کنٹرول مکمل ہوچکا ہے۔ ان صوبوں کے بیشتر اضلاع بھی طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ بلخ صوبے کے بیشتر اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ فاریاب جو ترکمانستان کی سرحد سے ملتا ہے، اس کے بھی کئی اضلاع پر کنٹرول کر لیاگیا ہے۔ یوں شمالی افغانستان پر طالبان کا نوے سے پچانوے فیصد قبضہ مکمل ہوچکا ہے۔طالبان کی جانب سے کابل فتح کرنے کے بعد صوبائی دارالحکومتوں کی فتوحات کا آغاز افراتفری کے خاتمے اور ملک میں امن قائم کرنے کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔اللہ تعالی کی مدد اور فتح شدہ صوبوں کے عوام کے تعاون سے مجاہدین بغیر کسی فوجی مزاحمت کے نیمروز ، جوزجان ، سرپل ، تخار ، قندوز اور سمنگان صوبوں کے دارالحکومتوں کو فتح کرنے اور وہاں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ان صوبائی دارالحکومتوں کو بغیر جنگ کے فتح کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ کابل حکومت اب عوامی حمایت کھو چکی ہے اور افغان فورسز کرپٹ حکومت کی بقاء کے لیے خود کو قربان کرنا نہیں چاہتیں۔لیکن کابل حکومت کے جنگ پسند عناصر نہیں چاہتے کہ ان صوبائی دارالحکومتوں کے لوگ امن کی نعمت سے مالا مال ہوں اور چند دن امن و امان کے سائے میں گزاریں۔اس نے زرنج اور قندوز جیسے گنجان آباد شہروں پر بمباری کی جس سے وہاں رہنے والے لوگوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ۔
دراصل افغانستان سے قابض قوتوں کے انخلا کے بعد پرامن،آباد اور خوشحال افغانستان اورافغانوں کی خواہش کے عین مطابق ایک صاف ستھرا اورسچا اسلامی نظام کا نفاذ استعماری قوتوںکے لیئے قابل برداشت نہیں ہے ۔ دنیا کو طالبان سے سے بدظن وبدگمان کرنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کی گئیں ، قتل و غارت کی جھوٹی ویڈیو وائرل کی گئیں ، غلام عالمی میڈیا پروپیگنڈہ میں مصروف رہا کہ ہمسایہ ممالک اور اندرون ملک کے لوگوں میں خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اوریہ کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں نوے کی دہائی کی طرح تشدد پھوٹ پڑیگاخانہ جنگی شروع ہوجائے گی اورلاکھوں لوگ ملک سے ہجرت کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔عالم اسلام اورقوم کو قوی امید ہے کہ امریکی انخلا اور مجاہدین کی حالیہ بڑی کامیا بیوں سے افغانستان میں جنگ بند ہوکر40 سالہ بحران کا خاتمہ ہوجائے گا ،اورافغانوں کی خواہش کے عین مطابق ایک صاف ستھرا اورسچا اسلامی نظام دوبارہ نافذہوجائے گا۔ آنے والا افغانستان آزاد، خودمختار، پرامن،آباد معاشی اور سیاسی لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان ہوگا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ بھارت اب تک افغان سرزمین کے ذریعے ہی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں بروئے کار لاتا رہا ہے جس کیلئے اسے کابل انتظامیہ کی مکمل معاونت حاصل رہی ہے۔ آج کٹھ پتلی افغان صدر اشرف غنی دم دبا کر بھاگ گیا جبکہ اس سے قبل طالبان کو شراکت اقتدار کی پیشکش کر رہا تھا وہیں وہ امریکا کو مطمن کرنے کی کوشش میں ناکام رہا اور بھارتی ایماء پر پاکستان کیخلاف بھی بلیم گیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا کچھ بعید نہیں کہ وہ فرار ہوتے ہوئے بھارت کو افغانستان کے راستے اپنے جاسوس اور تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کی کھلی چھوٹ دے گیا ہو اس لئے ہمیں پاک افغان سرحد کی پہلے سے بھی زیادہ کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اب عالمی برادری کو بھی افغانستان کے راستے سے علاقائی اور عالمی بدامنی کے امکانات کے تدارک کی خصوصی تدابیر کرنا ہوں گی۔اس خطے میں امریکا بھارت گٹھ جوڑ کو بہرصورت نکیل ڈالنے کی ضرورت پڑیگی بصورت دیگر بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور اس کیلئے امریکی سرپرستی پورے خطے اور پوری دنیا کا امن و امان برباد کر سکتی ہے۔
ہم نے افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرکے بہت نقصانات اٹھائے ہیں چنانچہ مزید نقصانات کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ آج چین‘ ترکی‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت خطے کے ممالک کے مفادات افغانستان کے امن کے ساتھ وابستہ ہیں اس لئے خطے کے یہ ممالک ہماری قومی خارجہ پالیسی کا محور ہونے چاہئیں۔ اگر ہم اسی تناظر میں علاقائی طاقت کا توازن درست کرنے میں معاون بنتے ہیں تو اس سے دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں بھی مدد مل سکتی ہے چنانچہ یہ مرحلہ ہمارے لئے نازک بھی ہے اور اہم بھی۔ ہمیں ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کی بہرصورت پاسداری کرنی ہے۔