دوسروں کو نصیحت

دنیا کل تک امریکی اور نیٹو افواج کی  حمایت میں  زمین و آسمان کے قلابیں ملارہی تھی اور اس بات کو بھول گئی تھی کہ  امریکا وہی غلطی دہرا رہاہے جو پہلے 1839 تا 1842 کے دوران  تاج برطانیہ  نے  ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھیس  بدل کرکی تھی ۔اس کے بعد 1979 سے 1989 سوویت یونین  موجودہ روس نے کی تھی ۔مگر  تاریخ میں یہ اکثر ہوتا رہا ہے کہ قومیں جب طاقت کے ذریعے  کمزور قوموں اور ملکوں کو اپنا غلام بنانا شروع کرتی ہیں تو ان کے دماغوں میں  ساری دنیا پر جبر کے ذریعے حکمرانی کا خنّاس  بھرنا شروع ہوتاہے اور دنیا ان جابر  قوتوں  سے مرعوب ہوکر  انجام سے بے خبر انہی  کے گیت گانے شروع کردیتی ہے ۔

افغان عوام نے جہاں ایک دن کے لیے بھی کسی باطل کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالا وہاں وہ امریکا اور اس کے نیٹوں ممالک کی غلامی  کا طوق اپنے گلے میں کیسے ڈال سکتے تھے حریت  تو ان  کی رگوں میں  خون کی طرح  رگوں میں دوڑ رہا ہے  ۔ جس  میدان کو انہوں نے  اللہ کے بھروسے ،جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سر کیا اور دنیا کے  نام نہاد سپر پاور  اور اس کے حواریوں کو ایک طویل معرکے کے بعد  زمین چاٹنے پر مجبور کیا ۔ یہ بات اس تناظر میں کہنے کی ضرورت پڑی کہ آج کل سارا مغرب افغانوں کو حکومت سازی میں راہ نمائی دے رہا ہے  اپنی اوقات کو بھول بھال کر۔

  اسی طرح  ہمارے نادان سیاست دان  جن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری شامل ہیں ،یہاں سے طالبان کو ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔ جس کا لب لباب یہ  کہ اب افغانستان کو  ایسا کچھ کرنا ہوگا جو ساری دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا  کہ دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ  طالبان جو کچھ کہ رہے ہیں وہ کرتے ہیں کہ نہیں اور اس کے بعد شاہ صاحب نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ طالبان ایسا سیاسی ڈھانچہ بنائیں  جس میں سب شامل ہوں نیز  یہ افغان قیادت کی فہم فراست کا امتحان ہے کہ وہ اب چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں ۔دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہو ا کہ فاتح نے اپنے مفتوح کو مزاکرات کی دعوت دی ہو ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب میدان  جنگ میں شکست ہونے لگتی ہے تو  ہارنے والا مذاکرات کی میز پر  آتاہے  اس لیے کہ امریکا اب اپنی اور اپنے ساتھ لڑنے والوں کی جان بچانا چاہتاہے  ۔

دوسری جنگ عظیم میں تو  امریکہ کی صفّاکیت یہ حال تھا کہ جب جاپان نے شکست تسلیم کرلی  تھی تب بھی امریکا  نے جنگی جنون میں مبتلا ہو کر جاپان کے دوشہروں پر ایٹم بم حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا ۔ یہ تو  اسلام کی برکت ہے کہ طالبان نے  وسعت قلبی کا مظاہر ہ کیا  کہ وہ کسی جنگی جنون میں مبتلا نہیں ہوئے اور انہوں نے امریکا کے مزاکرات کی پیش کش کو قبول کیا ۔

 پہلے قدم  پر تو یہ سمجھنے کی بات ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں  کہ “دوسروں کو نصیحت اپنے کو میاں فضیحت ” وزیر خارجہ صاحب  !  اپنی حالیہ  وزات خارجہ اور اپنی سابقہ وزات  میں آپ نے بڑی کوشش کی کہ پاکستان  دنیا کے لیے ایسا ہوجائے کہ ساری دنیا کے لیے قابل قبول ہوجائے   مگر آج بھی پاکستان کو نہ مغرب دل سے قبول کرتاہے اور نہ بھارت قبول کرتاہے  اسکے مقابلے میں  مغرب اور امریکا کو دل سے بھارت زیادہ قابل قبول ہے ۔ابھی تک  اتنے جتن کرنے کے بعد ہم ان کی گرے لسٹ سے بھی باہر نہیں نکل سکے ۔طالبان  نے اوّل دن سے شریعت کی بات کی ہے وہ اس پر آج  بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔    ہم نے پاکستان حاصل کرتے ہوئے اللہ  سے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے  کیا آپ نے جو حلف لیا تھا کہ میں آئین پاکستان کا وفادار رہوں گا  تو کیا آپ نے کتنے قدم اٹھائے ہیں اس وعدے  کو وفا کرنے کے لیے جس کا عہد ہمارےاور آپ کے  آباء و اجداد نے کیا تھا  ۔ان کے یہاں تو ابھی  کوئی آئین یا دستور کسی اسمبلی سے پاس بھی نہیں ہوا مگر ہمارے  یہاں تو یہ بات اوّل روز سے یہ بات طے تھی ۔

طالبان کی جدوجہد سے اگر اسلام کو نکال دیا جائے تو ان کی ساری جدوجہد اور قربانیوں کا مقصد صفر ہوجاتاہے ۔ان کی ساری جدوجہد اسلام کے گرد گھومتی ہے بالکل ایسی طرح جس طرح قیام پاکستان کی تحریک کی یا مسلمانان ہند کی اگر قیام پاکستان کی جدوجہد میں سے اسلام نکال دیا جاتاتو یقنا پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا اور نہ ہی اس  ملک کو پاکستان کہا جاتا۔کسی ملک کے قیام  کے بڑے اسباب میں قومیت ہوتی ہے ، جغرافیائی خصوصیت ہوتی ہے لسانیت کا تعصب بھی ہوتاہے مگر ان تمام وجوہات   میں سے کوئی وجہ قیام پاکستان کا سبب نہیں بن سکتا تھا مگر صرف ایک وجہ تھی اور وہ تھا اسلام  ،آج اسلام کے علاوہ تمام اسباب  کو زبردستی  تھوپا جارہا ہے   جس کی وجہ سے آج  اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے ایک بازو سے ہمیں محروم کردیا گیا ہے ۔دنیا کے دوسرے ممالک  قومیتوں کے علاقائی اور لسانیت  اور کسی اور نظام زندگی سے چلائے جاسکتے ہیں مگر پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے  یہی اس کی اساس ہے  اسے اسلام کے ہی بتائے گئے اصولوں سے چلایا جاسکتاہے ۔ہمارے بھولے بھالے وزیر خارجہ  یہ بھی فرمارہے ہیں کہ  یہ افغان  قیادت  کے فہم فراصت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے چیلنجز سے نمٹتے ہیں ۔یہا ں علامہ اقبال کا شعر عرض ہے!

تقدیر امم کیا ہے ، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہوتو کافی ہے اشارہ

کیا کوئی مغرب یا امریکا میں بیٹھا سوچ سکتاتھا کہ بیس سال کے بعد ایک ایسا دور بھی آئے گا  کہ امریکہ اور نیٹوں  کی شکست  نوشتہ دیوار ہوگی  لیکن مومنانہ فہم فراست رکھنے والے سر کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ  ایسا ہونے والا ہے۔  ہر چیلنج سے اللہ پر بھروسہ کرکے نمٹا جاتاہے۔آپ کی خارجہ پالیسی کہاں اڑ گئی  آپ افغان حکومت کو تسلیم کرنے میں دنیا کے ان ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں   جو بیس سال  افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرا کر واپس جارہے ہیں ۔ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ  مستقبل اسلام  کا ہے اور  شکست امریکہ اور اس کے حواریوں کا نصیب ہے۔

حصہ