معیشت کا کردار کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ بہتر اور مستحکم معیشت ترقی کی بنیاد ہوا کرتی ہے جبکہ کمزور معیشت کے ساتھ ملک اور قوم کی بقا بھی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ معیشت کا استحکام اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن کریم میں اہل قریش پر اللہ تعالیٰ کی جن دو خاص نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں امن و امان کے ساتھ دوسری بڑی نعمت بہتر معیشت ہی کو بتایا گیا ہے۔
دیکھا جائے تو امن و امان کے ساتھ بھی معیشت کا ایک گہرا تعلق ہے۔ جب کسی ملک اور قوم کی معاشی حالت درست ہوتی ہے تو وہاں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہوتی ہے، اس کے برعکس جہاں معاشی حالت ابتر ہوتی ہے، وہاں بد امنی بھی جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔جدید دنیا میں اس وقت اقوام عالم کے درمیان مسابقت کا بڑا میدان بھی معیشت ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم کی صف میں با عزت اور پر وقار جگہ بنانے کے لیے مضبوط اور مستحکم معیشت انتہائی ضروری ہے۔
وطن عزیز پاکستان بد قسمتی سے معیشت کے میدان میں ہمیشہ ہی مشکلات اور مسائل کا شکار رہا ہے۔ کسی بھی نئی حکومت کے لیے یہ ہمیشہ ہی ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔ موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس کے لیے بھی معیشت ہی ایک اہم اور بنیادی مسئلہ کی حیثیت سے سامنے موجود تھا، چنانچہ حکومت نے عوام کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا اور وعدہ کیا کہ سابقہ حکومت نے کرپشن، لوٹ مار اور غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بالکل تباہ کر دیا ہے اور ہم اس معیشت کو ٹھیک کریں گے۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے حسب توقع اس وقت حکومتی جماعت میں معاشی ارسطو سمجھے جانے والے اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا کر یہ ذمہ داری سونپی۔ اس کے بعد اب تک حکومت کو اقتدار سنبھالے تین سال کا عرصہ ہونے جا رہا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں اس عرصہ میں بھرپور تضادات کا مجموعہ رہی ہیں، جس کا نقصام ملک کی معیشت اور عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔
معیشت کا لفظ جب ہمارے یہاں استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر ملک کی مجموعی معیشت مراد لی جاتی ہے اور اسی کو پیمانہ بنا کر معاشی اصطلاحات اور اعداد و شمار کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے جس کا معاشرے کے عام متوسط اور غریب فرد کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے، نہ ہی وہ باتیں اس کی سمجھ میں آتی ہیں۔ پھر اسی کی بنیاد پر معیشت کے بہتر یا خراب ہونے کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے، گویا معیشت صرف اشرافیہ سے متعلق کوئی چیز ہے حالانکہ معیشت کا تعلق بنیادی طور پر ہر ایک فرد کے ساتھ ہے، اللہ تعالی نے اہل قریش پر جب معاشی حوالہ سے اپنی نعمت کا ذکر فرمایا تو انتہائی سادہ الفاظ میں فرمایا کہ ”اللہ نے ان کی بھوک اور فقر و فاقہ سے حفاظت فرمائی اور کھانے کی نعمت نصیب فرمائی۔“ غرض یہ کہ معیشت کی بنیاد ایک عام فرد کی معاشی حالت ہے اور اسی کی بنیاد پر معیشت کے بہتر ہونے یا کمزور ہونے کا فیصلہ کرنا درست ہو سکتا ہے۔
اگر ملک میں ایک عام متوسط اور غریب فرد کی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ملک کی معیشت بہتری کی جانب ہے اور اگر عام آدمی غربت اور افلاس کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ غربت و افلاس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو یہ ملک کی معیشت کمزور ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔
موجودہ حکومت کے تقریباً تین سالہ دور اقتدار میں ملک کے عام اور متوسط طبقہ کی معاشی حالت کمزور سے کمزور تر ہوئی ہے۔ ملک میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور افلاس یہ سب چیزیں بڑھی ہیں۔ حکومت نے اسی کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھاجبکہ اس سے دوگنا زیادہ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ،لیکن لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تجاوزات کے خاتمہ کے نام پر جس طرح بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اور سوچ بچار کے لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔ اس سے لاکھوں لوگ بے گھر ہی نہیں ہوئے، بلکہ اپنے ذریعہ آمدنی سے بھی محروم ہوئے۔
مہنگائی کی شرح اس حکومت میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پیٹرول جس کے مہنگے ہونے سے بے شمار چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں، اس کی قیمت بڑھانے کے لیے اب مہینہ کے ختم ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ مہینہ میں دو دو مرتبہ مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ ابھی اسی مہینہ کے شروع میں پیٹرول کی قیمت بڑھائی گئی تھی اور اب کل دوبارہ پانچ روپے اس کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ملک میں غربت و افلاس کی شرح میں بھی اضاٖٖفہ ہوا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مہنگائی سے متعلق حکومتی وزراء کے بیانات اور رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام کی اس معاشی حالت کا بالکل بھی احساس نہیں ہے۔ چیزیں مہنگی کر کے پھر عوام پر یہ احسان بھی جتلایا جاتا ہے کہ قیمت اس سے زیادہ بھی بڑھ سکتی تھی، یہ تو عوامی وزیر اعظم نے ”عوامی مفاد“ میں صرف اتنی قیمت بڑھائی۔ اس طرح کے بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
دوسری جانب ملک کی مجموعی معیشت کے بارے میں حکومت کا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس نے سابقہ حکومتوں کی تباہ کردہ معیشت کو درست کر دیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ معاشی اعداد و شمار حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ حکومت کی معاشی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حکومت نے تین سال کے عرصہ میں چار وزرائے خزانہ کو آزمایا ہے۔ اسد عمر سے شروع ہونے والا سفر اس وقت شوکت ترین پر پہنچا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کو ابھی دو مہینہ پہلے ہی یہ عہدہ دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی معاشی کارکردگی اتنی ہی بہتر رہی ہے تو پھر بار بار وزیر خزانہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے؟ پھر حکومت کی معاشی ناکامی کے گواہ بھی کوئی اور نہیں، بلکہ حکومت ہی کے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین ہیں جو کہ یہ وزارت ملنے سے پہلے حکومت کی معاشی کارکردگی کے سخت ترین نقاد رہے ہیں۔ ان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ اس حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیر خزانہ بننے کے بعد انہوں نے اس پر یوٹرن لے لیا ہے اور اب وہ حکومت کی معاشی کارکردگی کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دو مہینہ کے قلیل عرصہ میں ملک میں ایسا کونسا معاشی انقلاب آیا ہے کہ ان کی نظر میں تباہ حال معیشت یکدم آسمانوں سے باتیں کرنے لگی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
معاشی حوالے سے حکومت کی سب سے زیادہ تشویش ناک بات قرض لینے کی رفتار اور مقدار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سابقہ حکومتوں کی قرض لینے کی پالیسی پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ ان کی حکومت نے تین سال کے دوران اندرونی اور بیرونی ریکارڈ قرضے لے کر ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق اس وقت ملک کا مجموعی قرضہ تقریباً ”پینتالیس ہزار ارب“ سے تجاوز کر چکا ہے جو کہ 2018ء میں مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمہ کے وقت تقریبا تیس ہزار ارب تھا۔
مسلم لیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں ملکی قرضوں میں پندرہ ہزار ارب کا اضافہ کیا تھا، جبکہ اس حکومت نے اتنے ہی قرضے تین سال سے بھی کم عرصے میں لے لیے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے سابقہ حکومت کے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے کی غرض سے قرضے لیے ہیں لیکن یہ عذر تو پھر سابقہ حکومت بھی کر سکتی ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے کے لیے قرضے لیے تھے، پھر پیپلز پارٹی بھی یہ جواب دے سکتی ہے۔ قرضے تو ہر حکومت نے واپس کرنے تھے اور کیے بھی ہیں، اس لیے حکومت کا یہ عذر نا قابل فہم ہے۔
غرض یہ کہ حکومت کی معاشی کاکردگی اب تک کے عرصہ میں انتہائی مایوس کن ہے۔ حکومت نے اگر اپنے باقی ماندہ عرصہ میں معیشت کو بہتر اور مستحکم نہیں کیا اور ملک کے عام اور متوسط طبقہ کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوئے تو حکومت کے لیے اگلے انتخابات میں عوام کے پاس جانا ہی مشکل ہو جائے گا۔ حکومت ضمنی انتخابات میں عوام کا غصہ اپنی شکست کی صورت میں دیکھ چکی ہے۔ اگر اگلے انتخابات میں اس سے بچنا ہے تو حکومت کو ہر صورت اپنی معاشی کارکردگی کو بیانات سے آگے بڑھ کر عملی طور پر بہتر سے بہتر کرنا ہو گا۔