خلیفۂ ثالث، دامادِ پیغمبر سیدنا عثمان ؓ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ آپؓ کی پیدائش واقعہ فیل کے چھٹے سال ہوئی۔ آپؓ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنوامیہ سے تھا۔ آپؓ کا نسب پانچویں پشت میں نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے۔ یہ صرف آپؓ کی خصوصیت تھی کہ نبی کریمﷺ نے اپنی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں دیں۔ اسی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے آپ کی شادی سیدہ رقیہ ؓ سے ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثومؓ کا نکاح آپ سے کردیا۔
سیدنا عثمان غنیؓ کا شمار السابقون الاولون اور عشرۂ مبشرہ صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ اسلام کے لیے آپ کی جانی و مالی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپؓ نہایت سخی اور فیاض تھے۔ اللہ کی راہ میں بے پناہ مال خرچ کیا کرتے تھے۔ آپ کے مال سے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ مدینہ منورہ میں جب مسلمانوں کو پانی کی قلت کا سامنہ کرنا پڑا تو نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تمنا ظاہر فرمائی کہ کاش کوئی بئرِ رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردے۔ آپؓ نے اس کنویں کو بیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع پر جب مسلمان انتہائی نازک حالات سے گزر رہے تھے ، آپؓ کی ایثار و قربانی سے مسلمانوں کو غیر معمولی فائدہ ہوا۔ آپؓ نے کئی اونٹ، گھوڑے اور ایک ہزار دینار نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کیے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:”ماضرّ عثمان ما عمل بعد الیوم”یعنی آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی عمل اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
متعدد قرآنی آیات و احادیثِ نبویہ سے آپؓ کے بلند مقام و مرتبے کا پتہ چلتا ہے۔ مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کے ساتھ اس کی امت میں سے ایک رفیق ہوگا اور میرا رفیق عثمانؓ ہے جو جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ آپؓ کے عظمت و فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر آپؓ کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے مسلمانوں سے بیعت لی ، جس کا ذکر قرآن کریم کی سورت الفتح میں موجود ہے۔ اس بیعت میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کرامؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضامندی کا سرٹیفکیٹ ملا۔ اس بیعت میں نبی کریمﷺ نے خود آپؓ کی طرف سے بیعت فرمائی۔ آپﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ عثمان ؓ کی طرف سے ہے۔
حضرت عمرؓ کے بعد آپؓ مسلمانوں کے تیسرے خلیفۂ راشد مقرر ہوئے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں کئی کارنامے سرانجام دیے گئے۔ جمع و اشاعتِ قرآن کا کام ہوا۔ اسلامی فتوحات میں اضافہ ہوا اور اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ یورپ کے کئی ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچ گیا۔ ہندوستان اور افریقی ممالک میں اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و تشہیر ہونے لگی۔ تاریخِ اسلام میں پہلی مرتبہ بحری فوج کا قیام ہوا۔ اس فوج کے ذریعے رومیوں سے متعدد لڑائیاں لڑی گئیں، جس کے نتیجے میں کئی ساحلی شہر اور جزیرے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔ تلاوتِ قرآن کے معاملے میں جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق کا خطرہ لاحق ہوا تو آپؓ نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو حل فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ہی کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کے متعدد نسخے تیار کرواکے مختلف علاقوں میں بھیجے گئے۔ آپؓ نے تقریبًا بارہ سال خلافت کے فرائض سرانجام دیے۔ بالآخر 18 ذوالحج سن 35ھ کو بلوائیوں کے حملے میں آپؓ شہید کیے گئے۔