ڈائن ان کی اجازت کے بعد شہر کے مختلف حصوں میں بہت رش تھا بچوں کی خواہش پر ہم بھی کھانے کے لئے باہر چلے گئے۔ آرڈر میں ابھی ٹائم تھا اورمیں حسب عادت اردگرد کا جائزہ لینے میں مصروف تھی کے اچانک ایک بچے کی آواز نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی وہ دوسرے بچے سے کہہ رہا تھا آج تو بہت دیر ہو گئی بابا جانی بہت سخت ناراض ہوں گے اور آئندہ مجھے دوستوں کے ساتھ باہر آنے بھی نہیں دیں گے ۔16 ،17 سال کے بچے کا اپنے والد کی طرف سے اس پابندی کا اظہار ان کے والدین کی طرف سے اسکی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا لیکن تشویش کی بات یہ تھی کہ اس سے اگلے ہی لمحے ایک دوسرے بچے نے ہنستے ہوئے جواب دیا ارے یار بس کچھ دن کی بات ہے ڈومیسٹک وائلنس کابل نافذ ہونے دو پھر تو ہم سب کے مزے ہی مزے ہیں، پھر کوئی ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔
اس بچے کی بات سن کر میرے لاشعور میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ آ خر یہ ،”ڈومیسٹک وائلنس بل” ہے کیا چیز؟بہرحال بل تک رسائی بھی ممکن ہو ہی گئی اب جو اس پر نظر ڈالی تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ دل خون کے آ نسو رونے لگا۔ بل کے مندرجات تو کچھ زیادہ ہی تفصیل میں تھے جو بہت جدت پسند عالم وفاضل لوگوں کی بدولت قانون کا حصہ بننے جا رہے تھے مگر مجھ ناقص العقل کل کی سمجھ میں بس وہ نکات آئے جوکچھ یوں تھے:
* ملزم کا مدعی پر کسی بھی قسم کا معاشی اور معاشرتی استحصال جرم
* والدین کا بچوں کی پرائیویسی میں حائل ہونا جرم
*والدین کی طرف سے کوئی ایسی بات جو اولادکو نا گوار گزری جرم
*خرچا بند کرنے کی دھمکی دینا جرم
*شوہر کا بیوی سے تیز آ واز میں بات کرنا یا اصلاح کے لئے ہلکی سرزنش کو دھمکی قرار دیناجرم اور سونے پہ سہاگہ اس کی سزائیں مقرر کی گئی اور جھوٹی شکایات کے لئے بھی الگ سزائیں مقرر کی گئی میں یہاں ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتی میرا دل تو اسی نقطے پر اٹک چکا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ اب ماں باپ اپنی اولاد کی نگرانی نہیں کر سکیں گے صحیح اور غلط کے فرق کو واضح کرنے کے لئے جو تربیت کے اصول والدین مرتب کریں اب انھیں لبرل قانون کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔
نگرانی کو”اسٹاکنگ” اور تربیت کے لیے دی جانے والی سزاوں کو “ڈومیسٹک وائلنس “اور “اکنامک ابیوز”کا نام دیا جائے گا، جس کے تحت جسمانی، جذباتی، نفسیاتی استحصال میں میں ہتک آمیز رویہ ، خلوت میں دخل اندازی ،ہراساں کرنا اور معاشی استحصال میں معاشی ذرائع سے محروم رکھنا جیسی اصطلاحات کو معاشی تشدد میں شامل قرار دیا گیا ۔
مانا کہ یہ بل وقت کی اہم ضرورت ہے کہ 57 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن اس بل کو یوں نہیں ہونا تھا جس طرح سے پیش کیا گیا میرا تعلق کسی بہت مذہبی گھرانے سے نہیں لیکن میرے رب کا احسان ہے کے اس نے مجھے شعور بخشا ہے، اس سلسلے میں میرا موقف یہ ہے کہ جس طرح بڑھا چڑھا کر اس کے مندرجات کو پیش کیا گیا ہے وہ بے جا ہے کیونکہ ایک گھر میں رہنے والے افراد کا مزاجوں کے فرق کے باعث ایک دوسرے سے اختلاف انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ان کو معاشرتی سطح پر معاملہ فہمی اور حکمت عملی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میرا اختلاف یہ ہے کہ کہ ماں باپ کی طرف سے اولاد کی جانب کی جانے والی نگرانی والدین کے فرائض اور اولاد کے حقوق میں شامل ہے کہ والدین کی طرف سے جو بہترین چیز اولاد کو دی جاتی ہے وہ” بہترین تربیت” ہے اور آج کے پرفتن دور میں والدین کی ذمہ داری جس قدر بڑھ گئی ہے وہاں اس قسم کے قوانین نافذ کرنا بذات خود اصل استحصال ہیں کہ والدین کو ان کے بنیادی حق “نگرانی” اور اولاد کو ان کے بنیادی حقوق “تربیت” سے محروم کیا جائے نہ کہ تربیت کے لئے دی جانے والی معمولی ڈانٹ، مار (جس کی نماز کے لیے اجازت بھی دی گئی ہے ) اور عاق کئے جانے کی دھمکی ( جو کہ صرف دھمکی ہوتی ہے ورنہ ماں باپ ساری زندگی محنت کی اولاد کے لئے کرتے ہیں) کو جرم بنا کر پیش کیا جائے۔
اسی سلسلے کی دوسری کڑی میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو برا بنا کر پیش کیا جا نا ہے کہ ایک بیوی دراصل شوہر کی ذمہ داری ہے۔ خانگی زندگی کی بنیاد میاں بیوی دونوں کا پراعتماد اور ہم آہنگ زندگی بسر کرنا ہے میاں بیوی کوایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے اور جتنے حقوق اسلام میں بیوی کے مرد پر مقرر کئے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ،مگرعورت کے ٹیڑھے پن کے دلائل اور کم عقلی کے مسائل بھی قرآن سے ہی ملتے ہیں ہیں جس کے تحت راہ سے بھٹکتےدیکھنے کی صورت میں شوہر کو اجازت ہے کہ وہ ان کو خواب گاہوں میں علیحدہ رکھیں اور ماریں”(بحوالہ سورہ نساء” لیکن یہ انتہائی قدم ہے باہر حال اسکی نوبت نہیں آنے چاہیے مگر اس اجازت کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حدود ہیں اور ان کے لیے ولاتقربو کا لفظ استعمال ہوا ہے اب اس معاملے کو اتنا طول دینا کہ معاملہ عدالت تک لے جایا جائے یہ براہ راست خاندانی نظام پر حملہ ہے کیوں کہ جو ستر فیصد دیہی خواتین معاشی، جنسی اور معاشرتی استحصال کا شکار ہوتی ہیں ان میں سے کئی تک تو اس بل کی بھنک بھی نہ پہنچے گی اور شہری نظام میں “میرا جسم میری مرضی “کا نعرہ لگانے والی نام نہاد لبرل خواتین کی دلی مراد بر آئے گی جو مرد کے” قوام “ہونے پر پہلے ہی سوال اٹھا چکی ہیں۔ پھر” چراغ خانہ سے شمع محفل بننے کا سفر اتنی تیزی سے طے ہوگا کہ
وہی حال نظر آ تا دکھائی دے گا
روش مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اس بل کی مخالفت میں ایک موقف یہ بھی ہے کہ ایک گھر جہاں صرف شوہر ہی نہیں بلکہ دوسرے رشتے دار بھی بعض دفعہ فرد کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں لیکن درگزر ،معاملہ فہمی سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں لیکن جناب اس بل کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کرنا ایسا مسئلہ ہے جو ناقابل تلافی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور جس کا نتیجہ خاندانی توڑ پھوڑ کی صورت میں نکلے گا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خاندانی نظام کی بیخ کنی ہیں اس کی اصل جڑ ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی تعلیمات یعنی درگزر ،معاملہ فہمی اور صبر کی بھرپور نفی کی گئی ہے کہ حالات بہتر بنانے کے لئے ان کو اپنانے کی کوشش کی جائے۔
ہماری قوم کے باشعور افراد جتنی جلدی یہ بات سمجھ لیں تو اچھا ہوگا کہ یہ دراصل لبرلزم کے سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ نوجوانوں کا دل ہی نکاح جیسے بندھن اور خانگی زندگی سے اچاٹ کر دیا جائے کہ وہ نکاح کے بندھن میں بندھ کر ذمہ داریاں بھی اٹھائیں پھر نام نہاد آزادی کے نام پہ ان کے ہاتھ باندھ کران کے حقوق کو پامال کیا جائے یہ صرف یہودی ایجنڈا کے سوا اور کچھ نہیں
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں یہ قانون نا قابل قبول ہے۔ اسلامی پاکستان کے ہر باشعور فرد کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے اور اس کے نکات میں ترمیم کے لئے کوشش کرنی چاہیے چاہے اس کے لیے آپ کو قلم اٹھانا پڑے یا قدم ،ور ہر فرد یہ سوچ کر اپنا کردار ادا کریے۔
حق نے کی ہیں دوہری دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو بھی تڑپانا ہے