ہجرت نبوی سے قریبا چالیس سال قبل قبیلہ بنی عدی کے مایہ ناز سردار خطّاب بن نفیل کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس بچے کا نام عمرؓ بن الخطاب تھا، اس کی کنیت ابو حفص تھی، بعدازاں اس کا لقب فاروق پڑ گیا، اس بچے کا سلسلہ نصب نویں پشت میں آپﷺ ؐ سے جا ملتا ہے، نبی کریم ؐ کی نویں پشت میں کعب بن لوی کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام عدی ، دوسرے کا نام مرہ تھا، آپ ﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ حضرت عمرؓ، عدی بن کعب کی اولاد میں سے ہیں۔
آپؓ کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے، آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، آپؓ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں، آپ کی مرویات کی تعدادا 539 ذکر کی جاتی ہے۔آپ ﷺ نے جتنی بھی جنگیں کی حضرت عمرؓ نے ان میں نمایاں حصہ لیا، آپ ﷺ کی عادت شریفہ تھی کہ آپ معاملات میں صحابہؓ سے مشورہ لیا کرتے تھے، تمام صحابہؓ میں حضرت عمرؓ کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے، کیوں کہ متعدد بار ایسا چکا تھا کہ حضرت عمرؓ نے جو مشورہ دیا حکم ربانی بھی اسی کی تائید میں نازل ہوا، علامہ سیوطی ؒ نے ایسے بیس(20) مقامات درج فرمائے، جہاں حضرت عمرؓ کی رائے قرآن کے موافق تھی۔ آپﷺ نے حضرت عمرؓکے اسی جوہر کو دیکھتے ہوئے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔
حضرت ابو بکرؓ نے رحلت سے قبل آپ ؓ کو ولی عہد نامزد کیا، مرض الموت کے دوران حضرت ابو بکرؓ سے صحابہؓ نے پوچھا اگر خدا تعالی حضرت عمرؓ کو خلیفہ بنانے کی وجہ دریافت کریں تو آپ کیا کہیں گے، تو صدیق اکبرؓ نے فرمایا میں عرض کروں گا اے اللہ میں نے تمام لوگوں میں سے عمرؓ کو بہترین پایا اس لیے انہیں خلیفہ منتخب کیا۔
22 جمادی الثانی بروز منگل آپؓ مسند خلافت پر بیٹھے،آپ کی مدت خلافت 10 سال6 ماہ تھی، اس دورانیہ میں آپ نے بائیس لاکھ مربع میل کا علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل کیا، ان میں 36 ہزار شہر اور قلعے بھی شامل ہیں جو آپ نے فتح کیے، چار ہزار (4000) بت خانے مسمار کیے،چودہ سو (1400) مساجد تعمیر کرائیں، امیر المومنین کا خطاب سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے حصے میں آیا ، جو مسلمان سلاطین میں 1922 ء تک باقی رہا۔
انگریز مؤرخ مسٹر باڈے نے اپنی کتاب دی میسنجر( پیغمبر) میں حضرت عمرؓ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ” آپ ایسے طویل القامت تھے کہ اگر آپؓ بیٹھے بھی ہوں تو دوسرے کھڑے ہوئے افراد سے اونچے دکھائی دیتے تھے، چہرے کا رنگ گندمی تھا، قدرے سیاہ داڑھی سے ڈھکا ہوا، آپ ؓ کے دونوں ہاتھ یکساں کام کرتے تھے۔ قوت، قد کے مطابق تھی“۔
آر اے نکلسن اپنی کتاب” خلافت کی ابتداء اور عروج و زوال“میں حضرت عمرؓ کے متعلق رقم طراز ہیں کہ” وہ سادہ و کم خرچ تھے، خوف اور بے جا رعایت کے بغیر اپنے فرائض انجام دیتے تھے، خود پر سختی کی حد تک سر گرم عمل تھے، لیکن کمزوروں کےساتھ نرم گوشہ رکھنے والے تھے، دوسروں کے لیے اور خاص کر اپنی ذات کے لیے سخت گیر ناقد و مبصر تھے، حضرت عمرؓؓ ایک پیدائشی حکمران تھے، جن کی رو ئیں روئیں میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی“
ایک مضمون میں رسالہ عارف (دسمبر 1954ء) کے حوالے سے ڈاکٹر برناڈ شا کی رائے تھی کہ” آج سے تیس برس قبل مولانا محمد علی جوہر ؒ نے انگلستان کے مشہور ڈرامہ نویس برناڈ شا کو صداقت اسلام کا معترف سمجھتے ہوئے اپنے ایک خط میں اسلام کی تبلیغ کی تھی، جس کے جواب میں برناڈ شا نے لکھا: آپ مجھے مسلمان ہونے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن بتائیے تو آپ کو کس چیز نے غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کی آپ مسلمان ہیں، میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے اسلام کو اسلام سمجھتا ہوں، جو اس وقت دنیا بھر میں کہیں نہیں ہے“
تھیوڈور نولڈیک کتاب ”عربوں کی تاریخ “ میں لکھتے ہیں” حضرت عمرؓ نے ایک مکمل عسکری و مذہبی ریاست منظم کی، مذہب کے اصولوں کو شدت کے ساتھ برقرار رکھا، خلیفہ اپنی رعایا میں حقیر ترین انسان کی سی زندگی گزارتا تھا“
ہندوستان کے گاندھی جی کا ایک مضمون بعنوان ” کانگرسی وزراء کے لیے نظام عمل“ جریدہ ”ہر بجن“ میں شائع ہوا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ” کانگرسی وزراء کو وزارت کی کرسی پر بیٹھ کر فرعون بے سامان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عجز و انکساری کی مثال قائم کر دینی چاہیے، اپنی سادگی کو قائم رکھنا چاہیے، کانگرسی وزراء ہمیشہ تیسرے درجہ میں سفر کریں اور سادہ کپڑے پہنیں، میں(گاندھی) ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی مثالیں بیان کرتا ہوں، راما اور کرشنا زمانہ قبل تاریخ کے نام ہیں، تاریخ سیواجی اور پرتاب کے حالات بتاتی ہے، جو انتہائی سادگی کے ساتھ رہا کرتے تھے، لیکن ممکن ہے کہ اس میں اختلاف رائے ہو کہ جب انہیں قوت اقتدار ملا تو تب انہوں نے کیا کیا؟، مگر پیغمبر(ﷺ) کے اصحاب حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔
انگریز مؤرخ سر ولیم(جو ایک عسائی اور مخالف اسلام تھا ) جس نے حضرت عمرؓ کی سادگی کے متعلق لکھا “اقبال مندی کے پورے دور میں آپ نے کبھی بھی میانہ روی اور دانش مندی کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور نہ خود کو ایک سادہ اور معمولی عرب سردار سے زیادہ کچھ سمجھا۔ بعض اقات باہر سے آنے والے پوچھتے کہ ” خلیفہ کہاں ہے؟اور مدینے کی مسجد کے صحن میں انہیں تلاش کرتے حالانکہ وہ عظیم حکمران گھر کے معمولی کپڑوں میں ان کے سامنے ہی بیٹھا ہوتا”۔
احساس ذمہ داری کا یہ عالم کہ ہاتھ میں کوڑا لئے مدینے کی گلیوں، بازاروں میں گھوما کرتے تاکہ کوئی مجرم بروقت اپنی سزا سے بھاگ نا پائے اس لئے تو لوگوں کے ہاں یہ مشہور ہوا کہ ” حضرت عمرؓ کا کوڑاباقی لوگوں کی تلوار سے زیادہ خطرناک ہے”۔
26 ذی الحجہ 23 ہجری کو فجر کی نماز میں آپؓ معمول کے مطابق امامت کے لیے آگے بڑھے، ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ محراب میں چھپے فیروز ابولولو نے زہر آلود خنجر سے آپ پر تین وار کیے، ایک وار زیر ناف لگا ، اس سے آپؓ کی انتڑیاں کٹ گئیں، بعد ازاں آپ شہید ہو گئے۔ آپؓ کی تاریخ وفات کے متعلق بعض مؤرخین سے 26 اور 27 ذولحجہ سنہ 23 ہجری منقول ہے، البتہ بعض کتب میں جیسا کہ زبان زد عام ہے یکم محرم الحرام سنہ 24 ہجری بھی درج ہے۔ آپ ؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی اور حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعد بن وقاصؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے آپ کو قبر میں اتارا۔ یوں عالمِ تاب پردہِ خاک میں غروب ہو گیا۔