نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان “پھر وہی دال چاول تنگ آگیا ہوں ہر وقت یہ کھا کھا کے “روحیل چلا کر بولا سب ٹی وی لاؤنج میں خوشگوار انداز میں کھانا کھارہے تھے روحیل نے جیسے ہی ڈونگہ کا ڈھکن ہٹایا دال دیکھ کے غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا امی نے روحیل کو تعجب سے دیکھا سکینہ بیگم اور زاہد صاحب ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتے تھے زاہد صاحب بینک میں ملازمت کرتے تھے اور اب ریٹائر تھے اور ان کے تین بیٹیاں رخشندہ، عافیہ اور ماریہ تھیں۔ رخشندہ میٹرک میں عافیہ انٹر میں ماریہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھی اور ایک بیٹا روحیل تھا اس نے بی کام کیا ہوا تھا اور اب ملازمت کی تلاش میں تھا۔
سکینہ بیگم اور ان کی سب اولادیں شروع سے بہت نیک فرمانبردار تھیں اس لیے روحیل کو دیکھ کر تعجب سے بولیں ” کیا ہوا تم نے تو کبھی کھانے پینے کے معاملے میں کچھ نہ بولا تھا سب خیر تو ہے نہ؟ ” امی بھائی مجھے بھی بات بات پہ ڈاٹنے لگے ہیں کل غلطی سے مجھ سے روشنائی گر گئی میز پر جس پر بھائی نے خوب ڈانٹا ” ماریہ نے بھائی کی شکایت لگائی۔ “ہاں ہاں میں پاگل ہوں بےکار میں سب ڈانٹتا پھرتا ہوں اور چلاتا رہتا ہوں” یہ کہہ کر وہ پیر پٹختا ہوا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھانا کھائے بغیر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
زاہد صاحب اور سکینہ بیگم نے ایک روحیل کو کمرے میں جاتے فکرمندی سے دیکھا کہ یہ تو بیٹے کی طبیعت میں تھا ہی نہیں جب کوئی بات طبیعت کے خلاف ہو تو پریشانی تو ہوتی ہے۔” اس کو ابھی اس کے حال پر چھوڑ دو تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا” ۔ ابو بولے سب نے کھانا کھا کھایا رخشندہ نے جلدی جلدی سب برتن کچن میں رکھے اور اب امی ابو روحیل کو دیکھنے کے لئے اس کے کمرے میں پہنچے اس کا کمرا اصطبل بنا ہوا تھا سب چیزیں باہر پھینکی ہوئیں تھیں یہ سب دیکھ کر امی ابو کے ہوش اڑ گئے ۔
روحیل کو امی ابو نے مشکل سے سنبھالا اور سلانے کی کوشش کی تھوڑی دیر میں روحیل سو گیا اور انھوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ بہنیں کمرے کے باہر یہ سب فکرمندی سے دیکھ رہیں تھیں ان کی ٹانگیں خوف سے کانپ رہیں تھیں کہ یہ سب ہوا کیا ہے؟ ابو نے فورا نفسیاتی ڈاکٹر سے مشورے کے لئے رابطہ کرنے کا سوچا کہ تاکہ بیٹے کا صحیح علاج کرائیں۔
روحیل سو رہا تھا اور اب امی کو معاملے کی سمجھ آرہی تھی ہوا کیا ہے روحیل نے بی کام کئے ہوئے تین سال کا عرصہ ہوگیا تھا اور اب وہ ملازمت کی تلاش میں کوشاں تھا وہ کہتا “امی امی دعا کریں مجھے ملازمت مل جائے تو میں اپنی بہنوں کی شادی کراؤں گا آپ کو حج کراؤں گا اور ابو کو آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا اور اب ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہورہا تھا۔
امی اب معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں تھیں “اب مجھے اس کو پیار سے سمجھانا ہے” امی روحیل کی طرف دیکھ کر سوچ رہی تھیں ادھر روحیل کی اک دم آنکھ کھلی اور احساس ہوا میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا اب اسے شرمندگی ہو رہی تھی اب اس نے پختہ ارادہ کیا کل میں پھر انٹرویو دینے جاؤں گا انشاءاللہ مجھے نوکری مل جائے گی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اب وہ کمرے سے باہر نکلا امی ابو سے معافی مانگی اور کہا ” مجھے کل جلدی جگا دیجئے گا میں نے انٹرویو کے لئے جانا ہے امی ابو کو اس کا یہ رویہ دیکھ کر اطمینان حاصل ہوا۔
صبح ہوئی نئی امنگ اور پورے یقین کے ساتھ انٹرویو دینے آفس میں پہنچا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔جیسے ہی اس کی باری آئی “اچھا تو آپ نے بی کام فرسٹ
ڈویژن میں پاس کیا آپ کا اس کمپنی میں کام کرنے کے لئے کوئی تجربہ ؟” باس نے پوچھا؟”ابھی تو کہیں نوکری نہیں ملی تو تجربہ تو نہیں” روحیل نے جواب دیا۔ ہم آب کو نوکری نہیں دے سکتے کم از کم آٹھ سال کا تو تجربہ ہونا چاہیئے باس نے سن کر کہا ۔اتنا سننا تھا کہ روحیل بری طرح مایوس ہوگیا مایوسی کی حالت میں کرسی سے اٹھا اور گھر کی جانب روانہ ہوا اور تیز ڈرائیونگ سے گھر پہنچا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں جانے لگا اور اپنا کمرا اندر سے زور سے بند کرلیا۔
” کیا ہوا” امی گبھرا کر بولیں آواز سن کر رخشندہ ماریہ باہر آئیں ابو اور سب دروازہ پیٹ رہے تھے اور روحیل نے دروازہ نہ کھولا آخر کار چابی سے کمرے کا لاک کھولا اندر آئے تو جو منظر دیکھا تو سب کی آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گئی سلپنگ پلز کی بوتل ہاتھ میں لئے روحیل بستر پر اوندھے منہ پڑا تھا سب جلدی سے ہاسپٹل پہنچے ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور بولے “اب یہ اس دنیا میں نہیں”۔
ہوسکتا ہے یہ پولیس کیس بن جائے بہت مشکل سے اس کیس کو بننے سے روکا گیا سکینہ بیگم اور زاہد صاحب کا اکلوتا وارث اب اس دنیا میں نہ رہا تھا ان پر ایک قیامت برپا ہوگئی تھی۔آخر کب تک نوجوان نسل کبھی غربت کھی بےروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کریں گے ماؤں کے لخت جگر بہنوں کے بھائی اس دنیا سے جائیں گے آخر کب تک ؟
اگر یہ نوجوان نسل ہمت سے حالات کا مقابلہ کرے اور حکومت بھی بےروزگاری کا خاتمہ کے لئے حکمت عملی کرے تو یہ سب نہ ہو۔