آج پھر نوکری نہیں ملی کیا؟خالدہ نےاپنے بیٹے کے اداس چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جوکہ اندر داخل ہورہا تھا۔ہاں انٹرویو دینے کے بعدکہتے ہیں جب ضرورت پڑے گی تو بتا دیں گے۔پتہ نہیں کب ضرورت پڑے گی جہاں نوکری لگ جائے وہاں کمپنی بند ہو جاتی ہے کرونا کی وجہ سے ملازمین کو نکال دیتے ہیں اب اتنے تو وسائل نہیں ہے کہ کاروبار کرسکوں تیمور نے آتے ہی اپنا سارا غبار اپنی والدہ کے آگے نکالا۔اچھا چلو تم ہاتھ دھو لو میں کھانا لگاتی ہوں خالدہ بیگم نے اس کا منہ دیکھتے ہی مزید بات کرنے سے احتراز کیا۔
ایک سال میں کئی نوکریوں سے تیمور کو جواب مل چکا تھاکچھ کمپنیز لاک ڈاٶن کی وجہ سے خسارے میں چلی گئیں اور بند ہو گئیں لوگوں کی روزی چھٹ گی۔ تیموربھی ان میں سے ایک تھا ہمارے معاشرے میں ایسے کئی نوجوان ہے روزگای اور وسائل کی عدم دستیابی کی بناء پر ذہنی ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں، اسی وجہ شادیاں بھی موخر ہوتی جارہی ہیں نوکری نہ ہونے کی بناء ر رشتہ نہیں ملتا اورنوجوان ذہنی ڈپریشن کا شکار ہو کر چور دروازے تلاش کرتے ہیں، جس سے یا تو منشیات کی لت میں رہ کراس ٹینشن سے نجات پانے کا راستہ اختیار کرتے ہے اور کچھ چوری ڈکیتی کی وارادا ت کرکے اپنے روزگار کا انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تیمور کو بھی کئی لوگوں نے آفر دی کہ ہمارے ساتھ دھندے میں کام کرو ۔آخر کار بے روزگاری سے تنگ آکر ایسے ہی گروہ میں شامل ہوگیا جو کہ چھوٹی موٹی ڈکیتیاں کرتا تھا جس سے گھرکی دال روٹی چلنے لگی لیکن دل اور ضمیر کا سکون نا پید ہو چکاتھا، ان ہی دنوں ایک ڈکیتی نے تیمور کی زندگی تبدیل کر دی اسنے دوبارہ یہ کام نہ کرنے کا تہیہ کر لیا جبکہ گھر کے اخراجات اور بہنوں کی شادی جیسے مسائل منہ کھولے کھڑے تھے لیکن ضمیر کا سودا کرنا منظور نہ تھا ایک دفعہ ایک ماں بیٹا بائیک پر جا رہے تھے پورے ماہ کی تنخواہ بینک سے نکال کر گھر کا راشن لینے جارہے تھے، تیمور کےساتھی نے فون کر کے بتایا کہ پورے ماہ کی تنخواہ ان سے چھننی ہے تیمور کے ساتھ ساتھی نے اس بائیک کی جانب اشارہ کیا کہ ان کو روکو۔ تیمور نے پھرتی سےاس بائیک کو گن پوائنٹ پر روکا اورتمام پیسےنکالنے کو کہا لیکن بیٹا اپنی تنخواہ نکال کر دینے کو تیار نہ تھا جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے اس کی والدہ کی کنپٹی پر پستول رکھ دیں اور پیسے نکالنے کو کہا ماں نے بیٹے کی جان بچانے کے لئے اسےپیسے دے دینے پر اصرار کیا۔
لیکن جس نے پورے مہینے محنت سے پیسے کمائیں اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی محنت کی کمائی ایک سیکنڈ میں کسی کے حوالے کرتے ہوئے کیا حالت ہوتی ہے اتنے میں پولیس کے سائرن کی آواز آئی تیمور نے حواس باختہ ہو کر کہا کہ جلدی کرو نکالو پیسے ورنہ گولی چلا دوں گا۔لیکن لڑکا ادھرادھر ٹٹول کر اپنا وقت پاس کرنے لگا اتنے میں تیمور سے گولی چل گئی جو کہ لڑکے کے سینے میں لگی اور اس نے تڑپ کر اسی وقت جان دے دی تیمور کے سارے ساتھی اسے چھوڑ کربھاگ گئے اور والدہ اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر ادھ مری ہو گئی وہ دیوانگی سے اپنے بیٹے کو جھنجھوڑ رہی تھی اور تیمور کی طرف دیکھ کر کہا یہ لو پیسے ان پیسوں کے لیے تم لوگ لوگوں کی جان سے کھیلتے ہو جب خود کماٶ تو تمھیں اسکی قدر ہو دوسروں کی خوشیاں چھین کر کیسے سکھ پاتے ہو ۔اللہ کا خوف نہیں چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہو ۔
اتنے میں پولیس آگئی اور انہوں نے موقع پرتیمور کو حراست میں لے لیا اس واقعہ کے بعد سے تیمور جیل کی سلاخوں کے پیچھے میں زندگی کے بقیہ دن گزار رہاتھا ۔بے روزگاری نے ایک ماں سے اسکا سہارا چھین لیا ایک قابل شخص کو چور بنادیا جو اچھے مستقبل کی خاطر جگہ جگہ نوکری کےدھکے کھانےکےبعد مجبوراغلط راہ کا انتخاب کربیٹھا ایسےکتنے نوجوان ہے جوبے روزگاری سےتنگ آکر ایسی راہ اپناتےہیں حکومت کو بے روزگاری ختم کرنے کے لیےعملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے نوکریوں کا کوٹہ سسٹم بڑھایا جائے ہنر سکھانے کے ادارے قائم کیے جائے جہاں نوجوانوں کو مفت ٹریننگ دی جائے اور انہیں معاشرے کا قابل عزت فرد بنا یا جائے۔