بچے اس لیے ہوتے ہیں کہ روند دیے جائیں؟

کیا خواب اس لیے ہوتے ہیں کہ بکھر جائیں؟  کیا بچے اس لیے ہوتے ہیں کہ روند دیے جائیں؟  کیا وعدے اس لیے ہوتے ہیں کہ وفا نہ کیے جائیں؟  کیا پھول اس لیے کھلتے ہیں کہ مالی کی غفلت سے شاخ پر نہ رہیں؟ کیا حکمران اس لیے ہوتے ہیں کہ جھوٹے دعوے اور وعدے کرتے رہیں؟ کیا مسیحا اس لیے ہوتے ہیں کہ زخم ناسور بنادیں؟ کیا خادم اس لیے ہوتے ہیں کہ مستقبل کی جڑیں کھوکھلی کردیں؟ کیا وطن اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ بے اماں کردیے جائیں؟ کیا گھر اس لیے ہوتے ہیں کہ مقتل بنا دیے جائیں؟ یہ سوالات کیوں میرے ذہن میں مچل رہے ہیں؟اور کیوں میرے قلم کی نوک یہ لاوا اگل رہی ہے؟

اس لیے کہ میری نم آنکھیں اور میری زخمی نگاہ دیکھ رہی ہیں، اس معصوم کو جسے آرمی میں جانا تھامگر اب وہ معذور ہوگیا ہے۔میری سماعت سن رہی ہے ایسی چیخیں کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ!

“خنجر نے میرے میرا جگر چاک کردیا”اور چاک جگر چاک گریباں ایک بازو کے بغیر  وہ معصوم معذور ہوچکا ہے،جس نے اس قوم کا محافظ بننے کا خواب دیکھا تھا،آج خود دوسروں کے سہارے پر آگیا ہے۔

کتنا آسان تھا،کتنا آسان ہے،کسی کا مرجانا،کسی کا جیتے جی مرجانا،کسی کا بچہ پیدا ہوتے ہی یتیم ہوجائے،تو کسی کا بچہ معذور کردیا جائے،مختلف حادثات کے مواقع مختلف ہوسکتے ہیں مگر وجہ ایک ہی ہے۔

جی ہاں!نا اہلی،غفلت،دھوکا، انسانیت کی بے حرمتی۔لمبی لمبی تقریروں سے پٹاخے برآمد ہونے کا سین اس سے زیادہ کون دیکھے گا۔جن کا نوجوان لڑکا شہید ہوگیا،جو بچہ یتیم ہوگیا،جن کا بچہ معذور ہوگیا،بجلی کی ننگی تاروں نے حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کو بھی سفید کر کے دکھایا ہے۔

سب کچھ نظر آرہا ہے۔غفلت دانت نکالے کھڑی ہے،نااہلی اپنی کامیابی پر تالیاں بجا رہی ہے،بے حسی رقص میں ہےکہ خود کو قوم کا خادم کہنے والے،ریاست کو مدینہ بنانے کا دعوی کرنے والےانسانیت کی قدر بلند کرنے کا دعوی کرنے والے

اور اس ضمن میں کرتار پورکھولنے سے لے کر قادیانیوں پر مہربانیاں کرنے تک۔بے شرمی کی حدیں پار کر کے۔بے ہودہ اقدامات کرنے والے ۔صم بکم کی عملی تفسیر بنے کھڑے ہیں۔

کسی کی جان جانے کا،کسی کے یتیم ہونے کا،کسی کے معذور ہونے کا،خوابوں کے بکھرنے کا،ارمانوں کا جنازہ نکالنے کا،کوئی کفارہ ہوا ہے بھلا کیا؟لیکن یہ تو کسی معصوم کے بچ جانے پر ہرجانہ ادا کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔

یہ کہانی ہےملیر کے معصوم عبداللہ کی  کہ کرنٹ لگنے سے جس کا بازو ضائع ہوگیا۔بچے کی والدہ کے مطابق 27مئی کی شام بیٹا گھر کی تیسری منزل پر کھیل رہا تھا کہ گھر کے ساتھ گزرنے والی ہائی ٹینشن کی تار تیز ہوا کے باعث کھڑکی پر گری اور بچے کو کرنٹ لگ گیا۔ در حقیقت بجلی کے کھلے تار گھر کے ساتھ گزر رہے ہیں اور احمد عبداللہ کو کے الیکٹرک کی غفلت سے کرنٹ لگا تھا۔

یہ مطالبہ ہےعبد اللہ کے والدین کا کہ عبداللہ کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور بیرون ملک علاج کے اخراجات برداشت کرنا اس کے والدین کے بس میں نہیں ہے کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ فوری طور پر  کے محفوظ مستقبل کے لئے 11.5 کروڑ ادا کرے۔

عبد اللہ کی آنکھیں سوالیہ نشان ہیں کہ یہ مطالبہ کون سے مسیحا اور کون سے خادم پورا کروائیں گے؟کپتان مگر چھکے پہ چھکے لگا رہا ہے۔کہ یہاں سب بکتا ہے۔