انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اس کی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن اس کے رویے اس کے ماضی،اس کے اچھے برے تجربات اور نظریات کے محتاج ہوتے ہیں۔
ہر فرد واحد اپنے والدین سے جنم لیتا ہے اور اس کی تخلیق میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔والدین اگر متقی،پرہیزگار،نیک سیرت ہیں تو قوی امکان ہے کہ ان کی اولاد بھی ان کے نقش قدم پہ چلتی ہے جبکہ اس کے برعکس اگر والدین غصے،حسد،کینے،بغض یا تفرقہ بازی کے مرض میں مبتلا ہیں تو یقینا ان کی اولاد بھی اسی طرح کے اعمال کی حامل ہو گی۔
وراثتی اقدار ہر انسان کے اندر نسل در نسل سفر کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب بھی خاندانی اور نجیب الطرفین افراد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں معاشرے میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ایک جانب جہاں وراثتی رویے انسان کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دوسری جانب ماحول اور نظریات بھی انسانی رویوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔اعلی اساتذہ کی صحبت میں رہنے والا بداخلاق بچہ بھی ایک نہ ایک دن عمدہ اخلاق سیکھ ہی جاتا ہے مگر بری صحبت اور ماحول کسی بھی فرد کے جذبات پہ اثرانداز ہوتا ہے۔
انسانی رویے جن کا اظہار ہر خوشی غمی ،خوف،حیرت وغیرہ میں کیا جاتا ہے یہ ہمارے جذبات،
احساسات،خیالات،تاثرات،الفاظ اور نظریات کے ذریعے بیاں ہوتے ہیں اور اگلے فرد تک پہنچتے ہیں۔اگر یہ رویے مثبت ہیں تو ان کا مثبت اثر تاحیات قائم رہتا ہے اور اگر یہ منفی ہیں تو ان کے اثرات بھی ہمارے زندگی میں شامل ضرور کوتے ہیں۔
اس کی بے تحاشا مثالیں موجود ہیں کہ اگر والدین بچے کو بچپن سے ہی بے حد حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس کو کسی مخصوص کام پہ مستقل شاباشی دیتے ہیں تو وہ بچہ اپنی زندگی میں اس مخصوص عمل سے نہایت خوشی محسوس کرتا ہے اور اسے اپنے مستقبل میں بطور پیشہ بھی منتخب کر لیتا ہے۔مثلا ڈاکٹر کے بچے ڈاکٹر،انجینئر کے بچے انجینئر اور استاد کے بچے استاد ہی بنتے ہیں اس کی بنیادی وجہ بچپن سے ہی اپنے والدین کو اس پیشے میں منہمک دیکھنا،ان کے تجربات سے فیض یاب ہونا اور ان سے متعلقہ شعبے کی معلومات کا حصول بھی ہے۔
تعریف ہر انسان کی زندگی میں ڈیزل کا کام کرتی ہے جو اس کی زندگی کی گاڑی کو فراٹے بھرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔یہ تعریف شوہر بیوی کی کرے تو وہ سارے گھر کا کام کر کے بھی نہیں تھکتی،ماں بچے کی کرے تو بچہ ماں کو خوش کرنے والے کام ضرور کرتا ہے۔بیٹا باپ کی کرے تو اس کی سارے دن کی تھکن اتر جاتی ہے،استاد طالب عمل کی کرے تو طالب علم اگلی بار مزید محنت پہ مجبور ہو جاتا ہے۔تعریف کرنا یا دوسرے کی حوصلہ افزائی ایک مثبت رویہ ہے جس کے اثرات جلد یا بدیر ضرور دکھائی دیتے ہیں اس کے برعکس طعنے دینا،طنز کے نشتر برسانا اور لوگوں کے کاموں میں کیڑے نکالنا نہایت ہی سہل رویہ ہے لیکن اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہیں۔انسان کے منہ سے نکلے کچھ الفاظ ایک چنگاری کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اور آگ لگا دیتے ہیں۔اس آگ میں کبھی ایک فرد اور کبھی پورا کا پورا خاندان یا خاندانی نظام جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
غیبت،حسد،بغض اور کینے کی مثالوں سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے جب ساس بہو کی چھوٹی سی بات کو بڑا چڑھا کر بیان کرتی ہے۔جب بہن،بھائی یا والدین کی ایک معمولی سی شکایت پہ شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے یا پھر بہت سی لڑکیاں اپنے ماں باپ اور گھر والوں کے خلاف طعنے سن سن کر اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کر لیتی ہیں۔طلاق،خلع اور خودکشی کے زیادہ تر کیس درحقیقت ہمارے معاشرے کے تلخ رویوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی ذات کی بہتری کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح پہ بھی توجہ دیں اور ایسے منفی رویے کے سدباب کے لیے قدم اٹھائیں کیونکہ ہم بھی اس معاشرے کا اہم رکن ہیں اور ہم سے معاشرہ جنم لیتا ہے