میرےچشم تصور میں 74 سال پہلے کا منظر جھلملا رہا ہے ۔ ایک خیال، ایک سوچ، ایک خواب، ایک نظریہ۔جس کی خاطر کھیت کھلیان جلے،کتنے گھر لٹے، کتنے بیٹے خاک ہوئے، بستیاں جلا دی گئیں، خون کی ہولی کھیلی گئی راہ طلب بھت دشوار تھی مگر دل میں عزم جاگ اٹھا تھا”لے کے رہیں گے آزادی” “مل کے رہے گی آزادی”۔
جب 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی یہ وہی وقت تھا جب اس کے حامیوں کے دل اطمینان سے لبریز تھے کہ غلامی کا سورج ڈوبنے کو ہے۔ ظلم کی زنجیر ٹوٹنے کو ہے ۔ ظلم کی رات جا رہی ہے ۔”بس آزادی آرہی ہے “جب ہندو سامراج کے مظالم سے تنگ بوڑھی آنکھیں اپنے جوانوں کی طرف اٹھتی تھی تو وہ کہتے تھے ۔ماں آزادی آ رہی ہے۔
جب بھوک سے بلکتے بچے ماؤں کی جانب تکتے تھے تو مائیں لوری سناتی تھی۔آزادی آرہی ہے۔ جب بہنیں اپنے تار تار آنچل کو دیکھ کر نظر یں جھکاتی تھیں تو بھائی ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر کہتے تھے ۔ بس آزادی آرہی ہے۔
یقین جانئے قرارداد پاکستان سے قیام پاکستان کا سفر گویا بہت کٹھن تھا مگر عزم ،ہمت ،حوصلہ، دعائیں، یقین ،جذبہ سبھی کچھ تو تھا ان بے سروسامان لوگوں کے دلوں میں اور اس یقین نے انہیں منزل تک پہنچا دیا۔ جی ہاں آج ہم آزاد ہیں۔ آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں مگر کیا یہ وہ آزادی ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا ؟آج اقبال کے اس خواب کی تعبیر مجھے دھندلی ہوتی نظر آتی ہے۔
آج آزادی کے رکھوالے سفید لباس زیب تن کرکے سیلفی لیتے، چہرے پر دل دل پاکستان پینٹ کروا کر سبز ہلالی پرچم کو لہراتے ہوئے سڑکوں پر غیر ملکی گانوں پر رقص کرتے نظر آتے ہیں ۔کیا یہی ہیں اس آزادی کے امین جن کے ذہن مغربی ثقافت کے غلام بن چکے ہیں ،جن کے دل لبرلزم کی زنجیروں میں اٹک گئے ہیں۔
جن کی سوچ اس آزادی کی طلبگار ہے جو دراصل بربادی ہے، کیا اس بار بھی یہ نسل اس بات سے غافل رہے گی کہ آزادی کی اصل روح کیا ہے؟ یقین جانئے اگر یہی حال رہا تو 74 سال پہلے” آزادی آرہی ہے”کاجو نعرہ لگایا گیا تھا ایک سوالیہ نشان بن جائے گا “کیا آزادی آرہی ہے؟” اب یہ آپ کی سوچ پر منحصر ہے. یقین یا سوالیہ نشان؟