ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

جلدی مل لو ناں جان من،ارے تو کیا ہوا کالج بنک کر کے ساحل سمندر جائیں گے اپنے جگری یار سے بائیک ادھار لی ہے۔تو تمھارے پیرنٹس کو بتاۓ گا کون؟چھٹی کی ٹائمنگز پہ کالج چھوڑ دوں گا بس تم حامی بھر لو۔وہ ایک  اٹھارہ انیس سال کا ٹام بوائے جیسے حلیے والا لڑکا تھا جو موبائل فون پہ کسی معصوم سی لڑکی کو ورغلانے میں مصروف تھا۔انھوں نے غور سے اس کی باتیں سنیں اور کف افسوس ملتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔

خبردار ہلنا نہیں جو کچھ ہے نکال دے ورنہ اگلے جہان پہنچا دوں گا ۔وہ دو نوجوان بائیک پر تھے ان کے ہاتھوں میں پسٹل تھی اور وہ ایک پیدل راہگیر کو دھمکانے میں مصروف تھے جو گڑگڑا رہا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی ہے عمر بھر کی پونجی یہی ہے نہ چھینو مجھ سے ۔مگر وہ سفاک سب چھین لے گئے اس سے اور وہ بوڑھا سڑک پہ صدمے سے بیہوش ہو گیا۔چند راہگیروں نے ایمبولینس منگواکر اسپتال روانہ کیا۔انھوں نے ایک سرد آہ بھری اور آگے چل پڑے۔

یہ ایک یونیورسٹی تھی ۔مگر یہاں تعلیم کی بجائے کون سی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔سامنے بڑے سے اسٹیج پر بڑا سا بینر لگا تھا”کلچر شو”اور اسٹیج پہ مخلوط بے ہنگم ڈانس کم از کم تعلیم سے متعلق سرگرمی نہ تھی ۔انھیں دکھ ہوا شاہین اپنا مستقبل اپنا مقصد بھلا کر کن راہوں کے مسافر بن چکے تھے جن کی منزل تباہی کے سوا کچھ نہ تھی؟

سامنے سڑک پہ خواتین کچھ پلے کارڈز اٹھائے کھڑی تھیں غور سے دیکھنے پہ پتا چلا کہ انتہائی بیہودہ نعرے درج ہیں جو اسلامی معاشرے کی عورت کو ہر گز ذیب نہیں دیتے۔

نور مقدم کیس؟؟نور مقدم سفاکانہ قتل کا شکار ہو گئی ۔معاشرہ بھیڑیوں کا معاشرہ بنتا جا رہا ہے ۔مگر اصل میں قصور کس کا ؟خود عورت کا ؟کہ وہ نام نہاد آزادی کے نعرے لگائے اور پھر اس آزادی کی بھینٹ چڑھ جائے؟یا بے لگام میڈیا کا جس کی بدولت معصوم کلیاں عصمت دری کا شکار ہو جائیں ؟مرد عورت کو کھلونا ہی سمجھ لیں اور عورت بخوشی اپنی عزت و ناموس کی پرواہ کئے بغیر کھلونا بننے کو تیار ہو جائے؟

انھوں نے ان سب حالات کا جائزہ لیا اور انتہائی دکھ سے سوچا کہ کیا یہ وہ اسلامی مملکت ہے جس کے حصول کی خاطر انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں ،اپنی زندگی،اپنی صحت دان کر دی ؟کیا یہ وہ شاہین بچے ہیں کہ جن کی اڑان کے لیے کامیابیوں کے راستوں کو آسان بنانے کی کوششیں کیں؟

کیا یہ وہ قوم کی بیٹیاں کہ جن کی عزتیں محفوظ رہیں اس لیے انگریزوں اور ہندوؤں سے نجات دلا کر الگ خطہ دلایا ؟وہ اداس تھے ۔ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر سوچ کے گہرے سمندر میں تھے کہ اچانک ایک ننھے بچے نے ان کے لباس کا کونا پکڑ کر پوچھا انکل آپ قائد اعظم ہیں ناں میں نے آپ کی پکچر دیکھی ہے آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں میں نے بک میں آپ کی اسٹوری بھی پڑھی ہے میں بھی آپ کی طرح محنت کروں گا اور نیا پاکستان بناؤں گا۔نیا پاکستان؟پاکستان تو بن چکا بیٹا بس اب اس کو سنوارنا ہے اسلامی اصولوں کے مطابق۔اس مقصد کو زندہ کرنا ہے جس کے حصول کے لیے اس وطن کو حاصل کیا تھا۔کیا تم ایسا کرو گے قائد نے پر امید نگاہوں سے اس ننھے بچے سے پوچھا۔

ضرور انکل میں ایسا ہی کروں گااور محمد علی جناح کی روح کو قرار آگیا کہ

نہیں نا امیداقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اور ننھے سے بچے نے پر عزم ہو کر کہا”اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں۔