وہ قوی تھے، بہادر اور جنگ جو تھے۔ علم والے تھے کہ اُس وقت پڑھے لکھوں میں شمار تھا جب قبیلہ قریش کے صرف 17 لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ وہ حضور اکرم ﷺ کے قتل پر تلے بیٹھے تھے، مگر قرآن حکیم کی اثر آفرینی تھی کہ بارگاہ نبوت میں قبول اسلام کے لیے گردن جھکائے آئے تھے۔ ان کا قبول اسلام تھا کہ مسلمانوں کے لیے مژدہ مسرت و شادمانی تھا۔ وہ خوفناک دشمن سے شدید حامی بن کر ابھر آئے تھے۔ وہ ابو حفص کی کنیت رکھنے والے، فاروق کا لقب پانے والے، دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ تھے۔
ان کا دور خلافت بھی خود انہی کی طرح اپنی مثال آپ تھا۔ بائیس لاکھ اکیاون ہزار تیس مربع میل کے فاتح مفلس بڑھیا کی داستان غم پر اشک ندامت بہاتے‘ اناج کی بوری خود اٹھا لائے تھے۔ بھرے مجمعے میں لمبی قمیض ایک سوالیہ نشان بن گئی تھی، مگر وہ کڑے احتساب سے گزرتے سرخرو ٹھہرے تھے۔
صرف یہ ہی نہیں ان کے دور خلافت میں آزادی و انصاف کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ وہ گرج رہے تھے، ” یہ سب انسان جب ماں کے پیٹ سے جنم لیتے ہیں تو بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ تم نے انہیں کب سے غلام سمجھ لیا ہے۔“ گورنر کا مجرم بیٹا کٹہرے میں لاجواب کھڑا کوڑوں کی سزا پانے کو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ بات صرف آزادی و انصاف کی بھی نہ تھی وہ تو دیانت و مساوات کے بھی اعلیٰ معیار دنیا کو روشناس کروا رہے تھے۔ مدینہ سے بیت المقدس کو جاتے راستے گواہ ہیں کہ بجز فاروق اعظمؓ کے یہ حوصلہ کسی میں نہ تھا کہ آقا چل دئیے پیدل‘ سواری پہ غلام آیا۔
وہ جہاں مجسم عجز و انکسار تھے، وہاں صاحب تدبر و تدبیر بھی تھے۔ ان کے قائم کردہ قواعدِ حکومت آج بھی عالم میں قابل تقلید ہیں۔ وہ کوفہ، بصرہ، شام، مصر اور موصل جیسے خوبصورت اور کشادہ شہر بسانے والے تھے۔ سن ہجری اور سکوں کا اجرا، مجلس شوری کا قیام اور شوری نظام کا آغاز انہوں نے ہی فرمایا۔ باقاعدہ فوجی نظام، فوجی قوانین، فوجی دفاتر، فوج کی بیرکیں اور چھاؤنیوں کا قیام، پولیس کے محکمے، جیل خانہ جات اور قید خانوں کا قیام، محکمہ قضا اور شہر میں قاضیوں کے تقرر کا عمل، سرکاری دفاتر، خزانے اور بیت المال کی بنیاد، مساجد میں اماموں اور موذنوں کا تقرر، نہروں کی کھدائی اور زرعی نظام کی بنیاد و اصلاحات، دارالامان، دیوان خانوں، مہمان خانوں، چوکیوں اور سراؤں کا قیام ان ہی کے دم قدم سے عمل میں آیا۔
شہروں میں کشادہ سڑکوں کا جال، مکہ و مدینہ میں بہترین سفری سہولتیں، مردم شماری اور پیمائش کے نظام کا اجرا ان ہی کی فہم و فراست کا نتیجہ تھا۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام کی توسیع و تعمیر، تروایح کی سنت، مقام ابراہیم کی مجودہ جگہ، مساجد میں چراغ جلانے کی روایت، نماز جنازہ میں چار تکبیریں، شراب پینے پر 80 درے، غیر مسلموں کا عرب سے اخراج، گھوڑوں پر زکوة، غریبوں اور بیواؤں کے لیے وظائف، عدلیہ کا بہترین فوری اورشفاف نظام دنیائے عالم کو تحفہ عہد فاروقی ہیں۔
اسلامی سلطنت کو وسعت دینے والے اور بہت سی اصلاحات کرنے والے فاروق اعظمؓ کو مخاطب کر کے میرے آقا خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تجھے کسی راستے پر چلتا ہوا ملتا ہے تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے، کہ جس راستے پر تو چلتا ہے۔“ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1686) شیطان کو رستہ بدلنے پر مجبور کرنے والے امیر المومنین کی تمنا بھی انہی کی طرح حیران کر دینے والی تھی۔
وہ بارگاہ الہٰی میں درخواست پیش کیا کرتے کہ ”اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر، مدینہ میں موت دے۔“ (بخاری) ان کی درخواست قبول ہوئی اور 27 ذی الحجہ کو نماز فجر کی امامت کے دوران ایک پارسی غلام ابو لولو نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ یکم محرم کو زخموں کی تاب نہ لا کر وہ رحلت فرما گئے۔ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
آج صدیوں بعد بھی ان کا پڑھایا ہوا، عمل کر کے دکھایا ہوا، صداقت، شجاعت اور دیانت کا سبق ایک باز گشت کی مانند فضاؤں میں گونج رہا ہے۔ ہے کوئی ہم میں ایسا جو اس گونج پر لبیک کہے؟ مالک ارض و سماوات کی اس کائنات ارضی پر ان کی مانند خلافت کا حق دار ٹھہرے؟