سماج دشمن عناصر سے مقابلہ ہو یا دہشت گردی کا خاتمہ، قانونی کی بالادستی ہو یا امن و امان کا قیام ، ہر محاذ پر پولیس فورس کے بہادر جوان فرائض منصبی کے دوران جام شہادت نوش کرتے آئے ہیں۔ وطن کی خاطراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدائے پولیس کی عظیم خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہدائے پولیس چاراگست کو منایا جاتا ہے ۔ نیشنل پولیس بیورو پاکستان کے زیر اہتمام ملک بھر میں یوم شہدائے پولیس منانے کا مقصد قوم کے ان بہادر سپوتوں کی شجاعت کو سلام پیش کرنا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی یاد میں بڑی تقاریب کا انعقادکرناہے جس میں شہداء کی ارواح کو ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور محکمہ پولیس کے شہداء کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
چاروں صوبوں کی پولیس اور سپیشل فورسز کی جانب سے صوبائی، ریجنل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پولیس افسران، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، ایف آر پی، ایلیٹ فورس ، ٹرنینگ اسٹاف اور ٹریفک پولیس سمیت ہر یونٹ کے افسران اور جوان ، شہدائے پولیس کے لواحقین و اہل خانہ کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ یوم شہدائے پولیس پر اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ صرف پولیس فورس کے نہیں بلکہ پوری قوم کے شہدا ء ہیں اور ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو بھولے نہیں اور نہ ہی کبھی بھولیں گے ، ہمیں ان کی عظیم قربانیوں پر فخر ہے۔
بلاشبہ جس طرح پاک فوج کے جوان سرحدوں کی حفاظت اور ملک دشمن عناصرسے جنگ کے دوران جام شہادت نوش کرکے تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں اسی طرح وطن عزیز کے اندر عوام کے جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے لئے قائم اداروں میں سر فہرست محکمہ پولیس کا ادارہ ہے جوکہ ملک بھر میں دہشت گردی ،چوری، ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم کے خلاف برسرپیکار ہے ،پاک فوج کے جوان سرحدوں پر ملک کی حفاظت کررہے ہیں تو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز ملک کے اندر موجود ، امن دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصر وف عمل ہیں۔ لیکن بات جب پولیس فورس کی ہوتو عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، کسی سے بھی پولیس کے بارے میں بات کریں فوراً اس کی زبان پر پولیس کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں۔
عوام ہو یا میڈیا غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے اور اس طرح پولیس کے خلاف شکایات کا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ان شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقات کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا اداراک ہے کہ پولیس جتنا سخت اور طویل ڈیوٹی کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا۔ اور شہریوں کے ساتھ جب کوئی حادثہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ پولیس کو ہی اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں،کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پولیس ان کی مدد کو ضرورپہنچے گی۔
پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ہرطرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں۔ موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طورپر موسم گرما میں پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی باوردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور بھاری بھرکم گن اٹھائے فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں، توکیا معاشرے کے کسی فرد نے کبھی ان اہلکاروں کے چہروں پر فرض کی ادائیگی کے پیچھے ان کی آنکھوں میں چھپی اس حسرت کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ عید جیسے تہوار پر ان کے بچے کتنی شدت سے ان کا انتظار کر رہے ہوں گے؟کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیرو تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے ان کی سکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا؟
تمام تر معاشرتی بے حسی ، نفرت ، تنقید،تمسخر اورشدید ترین نقطہ چینی کے باوجود پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پاکستان پولیس کا نظام انحطاط کا شکار رہا ہے اور اسکی بنیادی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت تھی۔ برسراقتدار افراد اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے جس سے پولیس عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کر نے میں اپنے اصل منصب سے دور ہوتی چلی گئی ۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے پولیس سسٹم میں خاصی بہتری آئی ہے ، محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہواہے۔ اور اعلیٰ پولیس افسران نے اپنی ساری توجہ عوام کے پولیس پر اعتماد کو بحال کرنے پر مرکوز کررکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سنگین وارداتوں کا گراف نیچے آیا ہے، اور شہریوں میں احساس تحفظ پیدا ہواہے۔ پولیس سسٹم میں مذید بہتری کے لئے برسراقتدار حکمران محنتی، دیانت دار اور عوام دوست افسران کو ترقی دیکر اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
شروع میں انسپکٹر جنرل آف پولیس افسران کی ترقی اور تعیناتی کیلئے صوابدیدی اختیارات رکھتے تھے لیکن اس اختیار کو آہستہ آہستہ وزرائے اعلیٰ نے استعمال کرنا شروع کردیا جس سے اس نظام میں خرابیاں ابھرنا شروع ہو گئیں۔ اب بھی پولیس میں بھرتی ،ترقی اور تعیناتی کے اختیارات پولیس افسران کو ہی ہونے چاہئیں اور پھر ان سے جواب طلبی بھی اسی طرح ہونی چاہیے۔ یوم شہدائے پولیس درحقیقت پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور اشتراک عمل کو بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہے جس سے بھر پور استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ آئندہ نسلوں کو پولیس کے شہداء کے کارناموں سے با خبر رکھنے کے لئے ٹیکسٹ بک بورڈز کے تحت چھپنے والی درسی کتابوں میں اس حوالے سے اسباق شامل کرے ، جس طرح افواج پاکستان کے شہدا کے تذکروں سے طالب علموں کے ذہنوں میں ان کی یادیں روشن کی جا رہی ہیں اسی طرح پولیس کے شہداء کی یاد بھی نئی نسل کے سامنے اجاگر کرکے یہ بات ان کے ذہنوں میں بٹھائی جائے کہ پولیس اہلکار بھی ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سر شار اورجرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہر لمحہ برسر پیکار رہتے ہیں۔ بلاشبہ پاک فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کی طرح پولیس فورس کی ناقابل فراموش قربانیوں نے ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک پر امن پاکستان یقینی بنا دیا ہے، یوم شہدائے پولیس پر وطن پر جان نثار کرنے والے شہدائے پولیس کو سلام ۔