” آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا”
جہاں لفظ آجاۓ قربانی، تو وہیں یہ بات سامنےآجاتی ہے کہ کونسی قربانی؟؟؟صرف مالی قربانی یا عیدالاضحی پہ ہونے والی قربانی یا اپنے نفس کی قربانی؟؟؟
مالی قربانی سے مراد کہ انسان اپنے مال، اپنی چیزوں وغیرہ کی قربانی دیتے ہوئےلوگوں کی مدد کرے۔۔۔۔!!
جبکہ عیدالاضحی کی قربانی سے مراد کہ انسان وہ قربانی کرے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر اللہ نے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر لازم کردی ہے۔۔
جی ہاں یہ وہی قربانی ہے جو ایک باپ نے اپنے بیٹے کی قربانی کی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللّٰہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کردی لیکن رب کریم نے اس وقت انکی جگہ ایک جانور یعنی دنبہ رکھ دیا۔جس کی صورت میں انھوں نے جانور ذبح کیا، لیکن اللّٰہ کو اپنے بندے کی قربانی محبوب تھی، اور اپنے حکم کی تعمیل کہ میرا بندہ کس طرح سے میرے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللّٰہ کے حکم کی پیروی کی تو دوسری جانب رب کریم نے اس حکم کی بدولت ہمیں پوری امت مسلمہ کو یہ پیغام دے دیا کہ لوگوں قربانی کا اصل مقصد تقویٰ ہے اور اللّٰہ کی رضا حاصل کرنا مطلوب ہے کیونکہ قربانی کا مقصد محض جانوروں کو ذبح کرنا، انکا گوشت تقسیم کرنا یا انکی نمودونمائش نہیں بلکہ یہ وہ قربانی ہے جو روح کی پاکیزگی ہے، دلوں میں ایمان کی تازگی اور “تجدید عہد” کا نام ہے کہ ہمارا ہر عمل بشمول جینا اور مرنا، ہماری ہر عبادت حتیٰ کہ پوری زندگی اللّٰہ کی رضا کے لئےوقف ہے۔ اللّٰہ کے پاس ہمارے ان جانوروں کا جو ہم ذبح کرتے ہیں اسکا گوشت اللّٰہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اللّٰہ تک تو ہمارے جانور کا خون، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللّٰہ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی ہمارا تقوی بھی اللّٰہ تک پہنچ جاتا ہے۔ تو اس لئےدل کی پوری خوشی سے اور خلوص نیت سے قربانی کرنا ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔
قربانی کرنا در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس یاد کے لیے ہے جس کے تحت وہ عشق الٰہی میں خود قربان ہونے کے لیے آخری مرحلے تک پہنچ گئے۔ اسی لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کیوں کی جائے ؟ کس کے لیے کی جائے ؟
قربانی خالصتاً اللّٰہ رب العالمین کے لیے کرنی چاہیے، کہ جس کے ذریعے سے ہمیں ہمارے نفس کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارا نفس کس حد تک تقوی اختیار کر سکتا ہے۔ یہی بات ہے کہ ہم سب کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جانوروں کو لا کر انکی نمود و نمائش کرتے ہوئے کہییں اپنی قربانی ضائع تو نہیں کر رہے ؟ کیونکہ ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کرتا ہے اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو نہ قربانی کر پاتے ہیں اور نہ ہی کسی قربانی میں حصہ لے پاتے ہیں لیکن وہ بیچارے اس چیز کا شدت سے انتظار کرتے ہیں کہ آخر ہم کب اس لائق ہونگے کہ قربانی کر سکیں۔
اسی لیے ہمیں اپنے آس پاس لوگوں کا خیال کرنا چاہیے اور اس چیز کا بھی واضح خیال رہے کہ جانوروں کی نمود و نمائش اور دکھاوا کرتے ہوئے کہیں ہم اپنے مقصد کو ضائع تو نہیں کر رہے، کہیں ہمارا قربانی کا اصل مقصد ضائع تو نہیں ہو رہا۔۔؟ ہمیں اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری قربانی سنت ابراہیمی کے شانہ بشانہ ہو اور اپنی قربانی کے اس عمل کو خالصتاً اللّٰہ کی رضا کے لیے وقف کیا جائے۔ سنت ابراہیمی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ جس پہ چل کر ہم اپنے ایمان کو اپنی روح کو تازگی بخش سکتے ہیں۔۔۔۔!!!