اس سال ہم بھی قربانی کریں گے ہم بھی گاۓ لائیں گے سبحان نے پورے گھر میں شور مچایا ہوا تھا۔ عیدالاضحی قریب ہی تھی تو یہ جوش و خروش تو بنتا تھا سبحان ابھی آٹھ سال کاہی تو تھا۔ صحن میں بیٹھی نازیہ یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔ اور بار بار سبحان سبحان پکار رہی تھی نازیہ سبحان کی والدہ تھیں سبحان نازیہ کے پاس آیا جی امّی جی سبحان بیٹا کس بات پر اتنا خوش ہو؟ امّی جان آپ کو یاد ہے۔ ابّو جی نے کہا تھا ہم اگلے سال گائے لائیں گے۔ ہم بھی قربانی کریں گے نا؟ سبحان کی والدہ یہ بات جانتی تھی کہ حالات ایسے نہیں کے ہم قربانی کر سکیں لیکن ابھی وہ سبحان سے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ سبحان نے مسلسل ضدہی کرنی تھی۔ آپ ابھی اسکول جاؤ پھر ہم شام کو کھانے کے بعد ابّو سے بات کریں گے۔ نازیہ نے گھر آتے ہی سبحان کے ابّو کو ساری بات بتائی اور کہا آپ ہی سمجھائیں-
جی بیٹا سبحان آپ کی امّی بتا رہی تھی۔ آپ کو مجھ سےکوئی ضروری بات کرنی ہے۔ جی ابّو وہ آپ نے کہا تھا نہ ہم بھی قربانی کریں گے۔ تو ہم گائے کب لایئنگے؟
دیکھو اللہ نے سب کو ایک سا نہیں رکھا ”کسی کے پاس کم ہے کسی کے پاس ذیادہ، کسی کے پاس علم ہے کسی کے پاس عمل پر ہر عمل میں قربانی دینا لازمی ہے چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی نیکی نیکی ہوتی ہے“ اپنی خواہش کو مارنا یا اپنی پسند کی چیز دوسروں کو دینا بھی نیکی ہے۔ ہمیں ہمیشہ وہ چاہیے ہوتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہوتا یا دوسروں کے پاس ہوتا ہے کیا اللہ نے ہمیں دوسروں سے بہتر نہیں رکھا؟ کیاہم چھوٹی چھوٹی نیکیاں کر کے اپنے رب کو راضی نہیں کر سکتے؟ اگر ہم قربانی نہیں کر سکتے تو کیا ہوا؟ اللہ نے ہمیں اور بھی نعمتیں دی ہیں دیکھو اس بار دادا ابّو کے علاج پر بہت خرچہ ہوا ہے۔ اس لیےہم قربانی نہیں کر سکتے۔ نہ ہی حصہ ڈال سکتے۔ کیوں کہ حقوق العباد بھی ضروری ہیں اور پھر داداابّو تو میری جنت کا دروازہ ہیں۔ اس سال میری چھوٹی سی نیکی یہ ہے۔ کہ میں نے اپنے لیے کچھ نیا نہیں خریدا بچپن میں میرے بابا نے بھی میرے لیےبہت سی قربان دی ہونگی۔ اللہ ہماری یہ نیکیاں قبول کرےآمین۔ اب تم اپنے دوست ثاقب کو ہی دیکھ لو تمہاری عمر کا ہے۔ برف بیچ کر اپنا گزارا کرتا ہے پڑھنا لکھنا بھی نہیں چھوڑا اسکول بھی جاتا ہے۔ اس کے تو ابّو بھی نہیں! کبھی ضد نہیں کرتا. کبھی ناشکری نہیں کرتا. اب یہ بتاؤ تمہیں قربانی کرنی ہے؟ جی ابّو بالکل کرنی ہے۔ تو پھر تم ایسا کرو اپنا عید کا سوٹ برف والے ثاقب کو دے دو۔ اس غریب کے تو کپڑے بھی نہیں بنے اور وہ مشکل سے ہی اپنا خرچ پورا کرتا ہے۔ یہ سن کر سبحان نے منہ بنا لیا. میں کیوں دوں میرا من پسند سوٹ ہے ہاں تبھی تو کہہ رہا ہوں اللہ کی رضا کی خاطر دے دو ہے اور پر ابّو۔ سبحان ہم قربانی نہیں کر سکتے ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے. دیکھو ہم ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں قربانی کرتے ہیں. تو اللہ نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی پسندیدہ چیز کی قربانی مانگی تھی. ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور وہ اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے لگے. اور اللہ تو نیتوں کو خوب جانتا ہے. اور اللہ نے ان کی قربانی قبول کی. اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ آسمان سے دنبہ آگیا. اس طرح فرمانبرداری اور قربانی دونوں ادا ہوگئی. اب بتاؤ سبحان کیا ہماری نیتیں صاف ہوتی ہیں؟ کسی کو چھوٹی سی چیز دینے کے لیے بھی ہم دس مرتبہ سوچتے ہیں. اسی طرح اگر ہم قربانی نہیں کر سکتے تو کیا ہوا. تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی رضا کے لئے قربان کر دو اور دعا کرو اللہ تم سے راضی ہو جائے اور قربانی کی توفیق دے- سبحان خاموشی سے سنتا رہا۔ رات کو سونے سے پہلے دعا پڑھ کر سبحان نے اپنی امّی سےکہا. ابّو نہیں کر سکتے تو نہ کرے میں تو ضرور کروں گا قربانی! دن گزرے اور عید قریب آگئی- آج عید کا دن تھا، سب مسجد سے نماز پڑھ کر جب باہر نکلے تو برف والا ثاقب بھی سبحان کے والد سے ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کرنے لگا. سبحان کے والد نے سبحان کی طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کس بات کے لیے؟؟ ثاقب نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا… انکل آپ نے جو سوٹ اور جوتے بھیجے تھے میں نے آج وہی پہنے کیسے لگ رہے ہیں؟ سبحان کے والد ایک دم چونک گئے. اور خوشی سے کہنے لگے ماشاءاللہ بہت پیارے لگ رہے ہو. بیٹا اللہ تمہیں خوش رکھے. اور سبحان کی طرف فخر سے دیکھنے لگے۔ گھر جاکر جب سارا واقعہ نازیہ نے سنا تو حیران رہ گئی۔۔ سبحان دیکھا میں نے کہا تھا نا!میں ضرور قربانی کروں گا تو دیکھیں میں نے چھوٹی سی قربانی دی۔ آج سے میری کوشش رہے گی کہ میرے غریب دوست بھی
عید منا سکیں. اللہ ہم سب سے راضی ہو آمین ثم آمین۔