2 جولائی 1947 کی ایک طوفانی رات کو امریکی قصبے روزویل میں ایک اڑن طشتری آکر گری۔ امریکی حکومت تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے اس بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لوگوں کو بتایا گیا یہ کوئی اڑن طشتری نہیں بلکہ موسمیاتی غبارہ تھا۔ لیکن اس حادثے کی تحقیق میں شامل ریٹائرڈ میجر اور مقامی چشم دید گواہاں کا کہنا ہے کہ اس حادثہ میں ملنے اڑن طشتری اور تین خلائی مخلوق کی لاشوں کو امریکی حکومت نے اپنے قبضے میں لیا تھا۔ روزویل کی یہ کہانی آج بھی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ہمیشہ معمہ بنے رہنے والے اس واقعے کی یاد میں ہر سال 2 جولائی کو ورلڈ یو ایف او ڈے منایا جاتا ہے۔
انسان نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کائنات کی وسعتوں کو ناپنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لا محدود کا فلسفہ کہنے میں آسان مگر اس کو اپنا لینا بےحد مشکل ہے۔ اس کائنات کے وجود میں آنے کے نظریات سے لے کر اس کے مسلسل ارتقاء کے نظریات انسان کی توجہ کا مرکز رہے اور وہ کائنات کی وسعتوں میں جھانکنے لگا۔ کائنات کے ارتقاء اور وسعت پذیری کے ساتھ ہر دور میں غیر مرئی /خلائی مخلوق کے بارے مختلف نظریات اور فلسفے جنم لیتے رہے۔ جو دلچسپ بھی ہیں اور خوفزدہ کرنے والے بھی ہیں۔ کائنات کی وسعتوں میں جھانکنا اور تجسس اپنی جگہ مگر یہ بات خوفزدہ کرنے والی ہے کہ اس کائنات اور کہکشاؤں میں صرف حضرت انسان ہی اکیلی مخلوق ہے؟ باقی سب سیارے , ستارے اور کہکشائیں کسی بھی قسم کی مخلوق سے خالی ہیں ؟
یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
یہی ڈر اور خوف تھا جس نے خلائی مخلوق کے تصور کو جنم دیا۔ پھر دو گروہ بن گئے جن میں ایک خلائی مخلوق کے وجود کو ماننے والوں پر مشتمل ہے اور دوسرا اس کو ذہنی اختراع اور فریب نظر قرار دیتا ہے۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔
دنیا کے تمام مذاہب میں جو مذہب سب سے زیادہ سائنٹیفک ہے وہ اسلام ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث سے ہمیں تین طرح کی مخلوقات کا علم ملتا ہے۔ انسان، جن اور فرشتے۔ مگر ہمیں قرآن ہی میں ملتا ہے۔
وَمِنْ اٰيَاتِهٖ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِـيْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍ ۚ وَّهُوَ عَلٰى جَمْعِـهِـمْ اِذَا يَشَآءُ قَدِيْرٌ (سورہ شوری آیت 29)
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور اس پر ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلائے، اور وہ جب چاہے گا ان کے جمع کرنے پر قادر ہے۔
خلائی مخلوق کا وجود ویسے ہی ممکن ہے جیسے اللّٰہ کی بےشمار دوسری مخلوقات ہیں۔ جنہیں آج سائنس کسی حد تک تو دریافت کر چکی ہے مگر ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔ حال ہی میں پلاسٹک کھانے والے جاندار بھی دریافت ہوئے ہیں۔
ناسا NASA کی ویب سائیٹ کے مطابق آج تک کسی خلاء باز /خلاء نورد نے کسی قسم خلائی مخلوق کو نہیں دیکھا نہ ہی کسی اڑن طشتری کو خلاء میں سیر کرتے دیکھا گیا ہے۔
اس کے باوجود زمین پر بارہا ,ایسی اڑن طشتریاں ( یو ایف اوز ) دیکھنے کے دعویے سامنے آئے ہیں۔ ان میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وقت اور تحقیقات ہی ثابت کریں گی۔ البتہ اس حوالے سے دلچسپ معلومات ملاحظہ ہوں۔
*خلائی مخلوق*
ابھی تک اگرچہ خلائی مخلوق کا ثبوت نہیں ملا مگر سائنسی فکشن کی بات کریں تو دس اقسام بتائی جاتی ہیں۔ جن میں سب سے ذیادہ مشہور سرمئی خلائی مخلوق اور چھوٹے سبز آدمی ہیں۔ ان کی ساخت کسی حد تک انسانوں جیسی ہے مثلاء ہاتھ، چہرہ، ٹانگیں وغیرہ
*اڑن طشتری*
خلائی مخلوق کا مشاہدہ کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آسمان میں اڑنے والی طشتریاں دیکھیں۔ جن کی رفتار 700میل فی سیکنڈ تھی (جو ہوائی جہاز کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔) یہ اپنا سائز بار بار بدلتی ہیں۔ ان سے تیز اور مدہم روشنیاں نکلتی ہیں۔ جہاں یہ اڑن طشتریاں اترتی ہیں وہاں گہرا کھڈا بن جاتا ہے۔انہی اڑن طشتریوں کے ذریعے خلائی مخلوق ہماری دنیا کی سیر کو آتی ہے۔ پچھلے سال پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایسے اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعویٰ کیا گیا۔
*پائلٹس کا اڑن طشتریاں دیکھنا*
گزشتہ سال ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پاکستانی پائیلٹس کوئی غیر معمولی شے دکھائی دے رہی ہے جو اڑن طشتری نما ہے۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی آئرش پائلٹس ایسی ہی اڑن طشتریاں دیکھ چکے ہیں۔ جس پر انہوں نے کنڑول ٹاور سے رابطہ کیا اور کہا کہ کیا کوئی فضائی مشقیں ہو رہی ہیں جواب میں کنڑول ٹاور نے کہا کہ ایسی کوئی مشقیں نہیں ہو رہیں۔ پائلٹس کا کہنا تھا کہ ان کی رفتار بہت زیادہ تیز تھی۔ اسی طرح امریکی فائٹر پائلٹ نے بھی ایسی ہی اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ اور کہا کہ یہ اس دنیا کے جہاز نہیں لگتے۔ یہ ویڈیو یو ایف او کے عالمی دن کے موقعے پر منظر عام پر لائی گئی۔
*کیا واقعی وہاں کوئی ہے*
خلائی مخلوق پر تحقیق ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ دنیا کے کئی علاقوں میں کئی بار لوگوں کو فضا میں اڑنے والی طشتری یعنی یو ایف او (ان آئڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹس) کے مشاہدے ہوئے ہیں جس پر قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں کہ کیا اجنبی یا خلائی مخلوق وجود رکھتی ہے؟ اگر کوئی ایسی مخلوق ہے تو؟؟ فطری طور پر نادیدہ کا خوف انسان میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نادیدہ کی کھوج ہمیشہ سے جاری ہے۔ انسان کو خلائی مخلوق کے خوف سے نکالنے کے لئے تحقیقات کا آغاز نوے کی دھائی میں ہوا اور 2000 میں ایک کتاب اس سلسلے میں شائع بھی کی گئی۔ اس کی چند کاپیاں شائع کی گئیں اور ان تحقیق کاروں کے نام بھی مخفی رکھے گئے۔ اس تحقیق کا مرکزی سوال یہ تھا: ’کیا وہاں کوئی ہے؟‘ مطالعے کے بعد تحقیق کاروں کا جواب یہ ہے: ’نہیں۔‘ ان تحقیق کاروں کے مطابق خلائی مخلوق کوئی مادی وجود نہیں رکھتے بلکہ موسمیاتی تغیرات، ٹوٹتے تاروں یا خلا میں موجود چٹانوں کی وجہ سے ایسے اثرات وجود میں آتے ہیں جن سے کسی مخلوق کا گمان ہوتا ہے۔
*ایریا 51*
امریکی فضائیہ کی ایڈورڈز ایئر فورس بیس کا نیواڈا ٹیسٹ اور ٹریننگ رینج میں ایک جدا علاقہ ہے جسے ایریا 51 (Area 51) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے اور بھی نام ہیں مگر ویت نام جنگ کے بعد یہی نام زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ ممنوعہ علاقہ ہے اور عام عوام کا خیال ہے کہ یہاں سے خلائی مخلوق کا کوئی خفیہ تعلق ہے۔ بیشتر افراد نے یہاں پر اڑن طشتریوں کو اڑتے دیکھا ہے۔ کچھ سال قبل انٹرنیٹ کے ذریعے اس علاقے میں داخل ہونے کی تحریک چلائی گئی جس کی وجہ سے بہت سے افراد مقررہ دن وہاں اس علاقے کی حقیقت جاننے اور خلائی مخلوق کو دیکھنے کے لئے پہنچ گئے تھے جن کو اداروں نے بعد میں منتشر کر دیا۔
*خلائی مخلوق کی طرف سے سگنلز*
کچھ برس قبل سائنسدانوں کو کچھ غیر معمولی سگنل موصول ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سیارہ “سپر ارتھ” سے موصول ہوئے ہیں۔اس سیارے کی سطح پتھریلی ہے اور یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں پانی کی مائع کی شکل میں ہونے کے امکانات ہیں۔ ان سگنلز کی نشاندہی آسڑیلیا میں نصب طاقتور ٹیلی سکوپ کے ذریعے ہوئی۔ ان سگنلز کے جواب میں پہلی بار زمین سے بھی ایسے ہی سگنلز بھیجے گئے ہیں۔ سائسندانوں کے مطابق جہان سے سگنل موصول ہوئے ان کے بیچ کئی ملین نوری سالوں کا فاصلہ ہے یعنی یہ سگنل کئی سو سال پہلے بھیجے گئے تھے جو اب وصول ہوئے ہیں۔ایسے ہی سگنل کینیڈا میں بھی موصول کئے گئے۔ ماہرین کے مطابق ان ریڈیو لہروں سے ملنے والے سگنلز ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے آنے والی ان لہروں کو جس رفتار سے بھیجا گیا تھا وہ بہت غیر معمولی تھا۔
اگر خلائی مخلوق زمین پر حملہ آور ہوتی ہے تو کیا ہم اس کا مقابلہ کر سکیں گے؟ اگرچہ اس مقصد کے لئے امریکہ نے اپنی خصوصی آرمی تشکیل دی ہے۔ مگر جس مخلوق کے کئی سو سال پہلے کے بھیجے ہوئے سگنلز آج ہماری زمین پر موصول ہوئے ہیں تو ان کے ٹیکنالوجی میں ایڈوانس ہونے کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
*مریخی بچہ*
روس میں موجود ایک بچے نے دعویٰ کیا کہ وہ مریخ کا باشندہ ہے۔ اس کے والدین کے مطابق یہ بچہ پیدائشی طور پر ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک تھا جو ڈیڑھ سال کی عمر ہی میں بولنے لگا تھا۔بچے کا کہنا تھا کہ جب دنیا میں مایا تہذیب کو زوال آیا تو اس وقت مریخ پر ایٹمی جنگ کی وجہ سے مکمل تباہی آ گئی اور تمام مخلوق ختم ہو گئی۔ وہ خوش قسمتی سے ان افراد میں سے ہے جو تباہ کاری کے اثرات سے بچ گئے اب وہ زمین پر اس مشن سے آیا ہے کہ دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچایا جا سکے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس جیسے بہت سے اور بچے بھی دنیا میں موجود ہیں ۔ اس نے شیر کے جسم اور انسانی چہرے والے مجسمے سے خلائی مخلوق کا خاص تعلق ہے۔ اب یہ بچہ روسی حکومت نے کسی خفیہ گاوں میں منتقل کر دیا ہے۔
*یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟*
اولاً انسان میں تجسس کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ کائنات اور اس کے اسراروں کی کھوج میں ہے۔ ثانیاً وہ کائنات کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ اور بات کہ
ڈھُونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا
اس دن کو کیسے منایا جاتا ہے؟
اس دن لوگ ٹیلی سکوپ کے ذریعے آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ اڑن طشتریوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ خلائی مخلوق پر سائنس فکشن دیکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اس دن خیر سگالی کے طور پر ” welcome to earth” پارٹی بھی رکھی جاتی ہیں۔ ( جس میں شرکاء انسان ہی ہوتے ہیں)۔