معاشرت و ثقافت انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ دونوں انسانی تال میل سے تشکیل اور فروغ پاتے ہیں۔انسان کو ایک سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔معاشرتی خصوصیت صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر جانداراجسام میں بھی یہ بدرجہ اتم نظرآتی ہے ۔ چیونٹیاں،شہد کی مکھیاں، بھڑو زنبور جیسے ادنیٰ جاندار بھی معاشرتی (گروہی) زندگی کے عادی ہیں۔معاشرے سے مراد ایک جیسے افراد کا ایک ایسا گروہ جو ایک دوسرے سے باہم مل کر کام کرتا ہے۔عرف عام میں اسے سوسائٹی ،سماج یا معاشرہ کہتے ہیں۔چیونٹیوں،شہد کی مکھیوں ،بھڑو زنبور وغیر ہ میں سماجی(گروہی) فرائض جیسے کام کی تقسیم (مزدوری) کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔بنیادی طور پر یہ طرزعمل ان میں فطری نوعیت (جبلتی طرز) کا ہوتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ان تمام میں باہمی گفت وشنیدکی صلاحیت پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے۔ انسان اور دیگر جانداروں کی معاشرتی زندگی میں پایا جانے والاواضح امتیازی فرق ثقافت ہے۔ انسانی معاشرے کو حقیقی خوب صورتی و دلکشی بھی ثقافت ہی عطاکرتی ہے۔معاشرے کو اگر جسم تصور کیا جائے تب ثقافت کو اس کی روح کہاجائے گا۔ روح کے مظاہر کا مشاہدہ عام ہے پھر بھی اسے دیکھا نہیں جاسکتاصرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ثقافت بھی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ارسطو کے مطابق’’انسان فطری طور پر سماجی جانور ہے، جس کا گزارا معاشرے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی خود کو معاشرے سے بیگانہ رکھتا ہے، وہ یا تو حیوان ہے یا پھر دیوتا‘‘۔ فرانسیسی فلسفی روسو نے فرد کی انفرادیت کو فوقیت دیتے ہوئے کہا ’’فطرت نے اسے آزاد پیدا کیا لیکن معاشرے نے اسے زنجیروں میں جکڑ دیا‘‘۔معاشرہ ثقافتی اقدار کو سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہوئے باہمی محبت و بھائی چارے کو پروان چڑھاتا ہے۔معاشرتی زندگی باہمی میل جول کے ذریعے صبر وتحمل،احترام و محبت ،اخوت و بھائی چارگی جیسے اقدار کوفروغ دیتی ہے۔
ثقافت کئی عناصر سے مل کر بننے والا ایک ایسامرکب (Complex) ہے جس میں علم،اعتقاد،فنون،اخلاقیات،قوانین،رسومات اور کئی دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ان عوامل و عناصر کوانسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے خود میں وقتاً فوقتاً جمع کرتا رہتاہے۔بہ الفاظ دیگر ثقافت انسان کے حاصل کردہ رویوں کے مجموعے کا نام ہے۔معاشرت و ثقافت انسانی زندگی کا طرہ امتیازاوروسیلہ اظہار ہے جس کے بغیر آدمی صرف ایک حیوانی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔معاشرت سازی کی طرح ثقافت بھی آدمی کی زندگی کو آسان اور کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ثقافت عربی زبان کے لفظ ثقف سے نکلا ہے جس کے معنی عقلمندی اور مہارت ہیں۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ کلچرسے مرادکسی چیز یا ذات کی ذہنی یا جسمانی نشو و نما ہے۔ ’’ثقافت اکتسابی ،ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے۔‘‘اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم و اقدار شامل ہوتے ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک وضع نہیں ہو ئی ہے۔ای۔ بی۔ ٹیلر ثقافت کے بارے میں کہتاہے’’ثقافت سے مراد وہ علم، فن، اخلاقیات، قانون، رسوم و رواج، عادات، خصلتیں اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو کوئی اس حیثیت سے حاصل کر سکتا ہے کہ وہ معاشرہ کا ایک رکن ہے۔‘‘اسی طرح ثقافت کی تعریف میں رابرٹ ایڈفلیڈر ر قم طراز ہے’’’’ثقافت انسانی گروہ کے علوم اور خود ساختہ فنون کا ایک ایسا متوازن نظام ہے جو باقاعدگی سے کسی معاشرہ میں جاری و ساری ہے‘‘۔مختصراًثقافت سے مراد انفرادی اور اجتماعی طریقوں کی رہنمائی کے لئے نسل در نسل منتقل ایک معاشرتی گروہ کے مادی اور روحانی سامان کا مجموعہ ہے۔ اس میں زبان ، عمل ، طرز زندگی ، رسم و رواج ، روایات ، عادات ، اقدار ، نمونے ، اوزار اور علم شامل ہیں۔
تعلیم ،معا شرت اور ثقافت کا باہمی تعلق؛۔ معاشرت و ثقافت انسان میں یک لخت پیدا نہیں ہوتی ۔یہ کیفیت اس میں وقت ،عمر اور حسب ضرورت فروغ پاتی رہتی ہے۔اکتساب و تجربہ معاشرتی زندگی اور ثقافتی اقدار کے تشکیل و فروغ میں کلیدی حیثیت کاحامل ہے۔ ہم بچوں کواسکول اور مدرسوں کو صرف درسی کتب میں چھپے الفاظ و جملے پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتے ۔بچوں کو اسکول بھیجنے کا اصل مقصد ان میں معاشرتی طرز زندگی اور ثقافتی اقدار کی تشکیل و فروغ ہوتا ہے۔معاشرتی و ثقافتی اقدار کی تشکیل و فروغ میں اساتذہ،درسی کتب،ہم جماعت ساتھی و مدرسے کے دوست،ماحول،گردوپیش کے حالات ،دیگر تعلیمی وسائل ،گھر سے اسکول تک کا سفر،معاون حمل و نقل کے ذرائع،تفریحی سامان و مشغلے،تعلیمی سرگرمیاں،ہم نصابی سرگرمیاں،کھیل کود اور دیگر عوامل اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ لیکن آج کل اسکولوں کی مسدودی سے ایک بے کیف اور بے روح آن لائن تعلیمی عمل جاری سہی لیکن یہ اکتسابی عمل معاشرے کی تعمیر اور طلبہ کی تعلیمی ضرورت کا ایک وقتی متبادل تو ہوسکتا ہے لیکن یہ حقیقی تعلیم، طلبہ کی ہمہ جہت نشوونما اور خوش گوار معاشرے کی تعمیر کا نعم البدل ہرگز نہیں ہے۔
زیر نظر مضمون میں دو ایسے واقعات کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایسی تعلیم جو معاشرتی اور ثقافتی اقدار سے نا بلد ہو وہ کیسے افراد کو جنم دے گئی۔معاشرت و ثقافت سے عاری آدمی ایک حیوان کی طرح برتائو کرنے لگتا ہے۔آدمی کو اس ترقی یافتہ معاشرتی طرز زندگی اور خوب صورت ثقافت کے گنجینہ گراں مایہ کی دریافت میں ہزاروں صدیوں کا سفرطےکرنا پڑا۔معاشرہ اور ثقافت ہی انسان طرز زندگی کے وہ خوب صورت پہلو ہیں جو اسے حیوانوں سے ممتاز و نمایاں کرتے ہیں۔نفسیات اور سائنس میں انسانی معاشرے سے کٹ کر پروان چڑھنے والے بچوں کے لئے ایک خاص فیرل چائلڈ(Feral Child)جنگلی بچے کی اصطلاح مستعمل ہے۔
فیرل بچہ (Feral Child)؛۔فیرل بچہ جسے جنگلی بچہ بھی کہا جاتا ہے ایک انسانی بچہ ہی ہوتا ہے جو بہت ہی چھوٹی عمر سے انسانی رابطے سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔ انھیں عام طور پر جانور پالتے پوستے ہیں ۔اس وجہ سے انھیں انسانی نگہداشت ، سلوک یا انسانی زبان کا بہت کم تجربہ ہوتا ہے۔فیرل بچوں میں بنیادی معاشرتی صلاحیتوں کا فقدان پایاجاتا ہے جو معاشرتی طرززندگی میں سکھائے جاتے ہیں جیسے بیت الخلا کے استعمال سے عدم واقفیت، صفائی ستھرائی کے انسانی اصولوں سے لاعلمی،ساری زندگی چار پائوں پر چلنے کے بعد دوپائوں یعنی سیدھا چلنا سیکھنے میں دشواری یا اپنے گرد و پیش کی انسانی سرگرمیوں سے عدم دلچسپی و لاتعلقی وغیرہ۔ یہ اکثر ذہنی معذور معلوم ہوتے ہیں۔ ایک انسانی زبان سیکھنے میں بھی انھیں ناقابل بیان پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان سیکھنے میں معذوری کی بنیادی وجہ کئی سالوں سے انسانی معاشرے سے ان کے الگ تھلگ ،کٹے رہنے کو قرار دیاگیاہے۔ ایسے بچوں کے متعلق متعدد تصدیق شدہ معاملات اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ باتیں بعض اوقات لوک داستانوں اور اساطیری داستانوں کا حصہ معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ سچ ہے ۔