کرونا سے بگڑتی صورت حال کچھ بہتر ہوئی تو ارباب اختیار کو تعلیمی اداروں کے کھولنے کا خیال آیا . گھر میں معمول کی چہل پہل صبح صبح ہی شروع ہوگی ابھی وہ روٹین جو دو سال کرو نا کے باعث سکول بند ہونے سے سے بگڑ چکی تھی اپنے معمول پر آتی نظر آئی میں بھی بچوں کو اسکول بھیج کر کر صفائی سے فارغ ہو چکی تھی تھی دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی مکمل تھی اور بچوں کے اسکول سے آنے میں کافی وقت تھا تو سوچا کہ چلو آج خالہ کو فون کر لیتی ہوںـ
موبائل اٹھا کر خالہ کا نمبر ملایا یا پہلی بیل پر خالہ نے کال رسیو کی ، سلام دعا کے بعد میں نے شکوہ کیا خالہ میرے تو بچے چھوٹے ہیں اور گھریلو مصروفیات بھی بہت زیادہ ہیں ہیں لیکن پھر بھی میں آپ سے رابطہ کر ہی لیتی ہوں لیکن آپ تو کبھی مجھے فون ہی نہیں کرتی کیا آپ کو میری یاد نہیں آتی خالہ نے بڑی متانت سے جواب دیا یا ارے بیٹا کیوں نہیں! رابطہ تم کرو یا میں لیکن بات یہ ہے کہ تعلق تو قائم ہے ناں، یہ احساس ہی بہت ہے کہ ہر دعا میں میں تمہیں اور تم مجھے یاد رکھتی ہو، ہر خوشی کے موقع پر اپنی خوشی اور دکھ کے موقع پر اپنا غم مجھ سے شیئر کرنا نہیں بھولتی ـ
جی خالہ! یہ تو ہے میں نے کہا،پھر خیر خیریت اور اور دو چار مختصر باتوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا ابھی میں خالہ کی بات کا سوچ ہی رہی تھی کہ واقعی یہ ہمارے بڑوں کی دعائیں ہی تو ہیں کہ اردگرد موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تعلق بنا رہتا ہے،اچانک دل میں خیال گزرا نہ کہ یہ اصول معاشرت کے ساتھ ساتھ روحانیت پر بھی تو لاگو ہے یعنی بندے کا معبود کے ساتھ ساتھ “رابطہ ہے یا تعلق.”
رابطہ در اصل دو افراد کا کا کچھ لمحات کو ساتھ گزارنا ملنا ملانا ‘ بات چیت کو کہتے ہیں ہیں خواہ وہ ظاہری طور پر ساتھ موجود ہوں ہو یا ان لمحات کو کو گزارنے کا کوئی اور ذریعہ موجود ہو جیسا کہ دور حاضر میں فون یا میسج رابطے کا ذریعہ ہیں اور تعلق نام ہےـ دلوں کے جڑ جانے کا یعنی وجودی طور پر ایک ساتھ موجود نہ ہو کر بھی کسی کی پسند نا پسند کے احساسات کا خیال ہو، یہاں یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ہم روزانہ پانچ وقت اذان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں تلاوت قران بھی کرتے ہیں, گناہوں سے رکتے اور نیکی کا اہتمام بھی کرتے ہیں ہیں اور دعا کرتے ہیں یعنی اپنے معبود سے “رابطہ” تو ہے لیکن جب ہم نمازاس احساس کے ساتھ پڑھی جائے کہ میں اس رب کے سامنے کھڑا ہوں جو میرا معبود ہے جب تلاوت کے وقت میں یہ سمجھ جاؤ کہ آج میرے لیے میرے رب کا یہ پیغام ہے ‘ “امر بالمعروف” کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ہوئے مجھے یہ یاد ہو کہ مجھے اسی مقصد کے لئے خلیفۃ اللہ فی الارض بنایا گیا ہے. جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے وقت میرا یہ یقین کامل ہو کہ اس نے کہا ہے کہ “مجھ سے مانگو میں دوں گا” .صرف اور صرف اسی ہستی کا خیال میرے دل میں ہو اسی کی مرضی میری زندگی کا حاصل ہو یہ ہے “تعلق “, اس سوچ نے مجھے اپنا جائزہ لینے پر مجبور کردیا ہے آپ بھی سوچیں کہ آپ کا اپنے رب سے تعلق ہے یا رابطہ؟ذرا سوچئے…..