اُس لڑکے نے بچپن سے ماسی رجو کے خزانے کی کہانیاں سُن رکھی تھیں جو ماسی کو ایک چالاک بڑھیا سمجھتا تھا ، جب وہ جوان ہوا تو اس کے دل میں خزانہ حاصل کرنے کی خواہش جاگی، سو ایک رات وہ ماسی کے گھر کی دیوار پھلانگ گیا، ماسی کے گھر کا ایک ہی کمرہ تھا وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کے پاس آیا اندر لالٹین جل رہی تھی اور چارپائی پر ماسی سو رہی تھی، اور ایک کونے پر تین صندوق پڑے تھے وہ بغیر چاپ کے کمرے میں داخل ہوا اور پہلے صندوق کا ڈھکن کھولا، صندوق نہ جانے کس زمانے کا تھا کہ لرزاٹھا اور ماسی کوشکایت کردی، ماسی کی آنکھ کھل گئی، کون ہے کون ہے۔
لڑکاپہلے توڈرا پھر اُس نے سوچا یہ بڑھیا اُس کا کیا بگاڑ لے گی سو اُس نے کہا ماسی میں خزانہ لینے آیا ہوں چُپ کرکے پڑی رہے تم نے اب اس خزانے کا کرنا کیا ہے یہ اچھا نہیں کہ کسی کے کام آجائے۔
’’ نہ نہ پُتر ، صندوق چھوڑ دے‘‘
لڑکے نے پہلے صندوق کی تلاشی لی کچھ نہ ملا دوسرا کھولا کچھ نہ ملا دونوں صندوقوں کو اٹھاکر ایک کونے میں رکھا ہی تھا کہ ماسی تیسرے صندوق کے ساتھ چمٹ گئی،
’’ نہ نہ پتر اس بکسے نوں رہن دے‘‘
’’ پُتر اس بکسے نوں رہن دے‘‘
لڑکے کا شک اب یقین میں بدل چکاتھا خزانہ اِسی صند وق میں ہوگا،
’’ ماسی ہٹ جا کہہ رہا ہوں آج خزانہ لے کر ہی جاوں گا‘‘
’’ دیکھ پتر تُو یہ لے جائے گا تو میرے پلے کیا رہے گا، میں پہلے ہی بھوکی ننگی در در روٹی مانگ کر کھاتی ہوں اب تُو مجھے اور فقیر کرناچاہتا ہے؟ کچھ تو میرے پلے رہن دے‘‘
لڑکے نے ماسی کا ہاتھ پکڑکے ایک طرف دھکیلا اور صندوق کا ڈھکن کھول کر ٹارچ جلائی۔
’’ اندر کفن تھا‘‘