معاشرے میں روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دار کون ہے؟ عوام یا سیاست دان؟ آخر ان بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟ یہ جرائم جو سنگین صورتحال اختیار کر رہے ہیں، ان میں سب سے زیادہ ہاتھ کس کا ہے؟ دراصل آج جو جرائم روز بروز بڑھ رہے ہیں، ان سب کا قصور وار ہمارا معاشرہ ہے۔ معاشرہ کا تعلق فرد سے، افراد سے، مرد سے، عورت سے اور سکونت پزیر عوام سے ہے اور ہم سب بھی اسی سے وابستہ ہیں۔ جرائم میں اضافے کی وجہ میرے نزدیک اپنے دین سے دوری اور غیر شرعی جدت پسندی ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا۔“ آج ہمارا معاشرہ ماڈرن مغربی دنیا کے رسم و رواج کو اپنا رہا ہے، جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ ہم اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی اقدار سے کنارہ کشی اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اپنے ناقص کردار کی وجہ سے اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب تک آدم ؑ اس دُنیا میں اکیلے تھے تب تک معاشرہ نہیں بنا تھا اور جب حواؑ آدمؑ سے ملی ہیں تو اس دُنیا میں معاشرہ تشکیل پانے لگا۔ یہاں صد افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ وہ دین جو عورت کو سب سے بڑا مقام دے رہا ہے آج کی نام نہاد مسلمان عورت اُسی دین سے اپنی اولادوں کو دور کیےہوئے ہے۔ ماں‘ اولاد کی سب سے پہلی تربیت گاہ کہلاتی ہے اور بچہ وہی کچھ بنتا ہے جو ماں کی گود میں سیکھتا ہے۔
تعجب ہے اس ماں پر، اُس بیٹی پر اور بہن پر جو اسلام کی حدود سے باہر نکل کر آزادی مانگتی پھر رہی ہیں۔ سنجیدگی سے سوچا جائے تو وہ آزادی نہیں بلکہ معاشرے میں اپنے مقام کو کھونے کی کاوشوں میں مگن لگتی ہیں۔ اگر مغربی طرز کے کم لباس کو اپنانا جدت پسندی ہے تو لعنت ہو ایسی جدت پسندی پر اور لعنت ہو ایسی آزادی پر جو اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے اور کھلم کھلا فحش معاشرے کی عکاس ہے۔ وہ مرد جس کو اسلامی معاشرے میں بُلند و بالا مُقام دیا گیا ہے، وہ عورت کی آزادی سے مُستفید ہوتے ہوئے بازاروں میں اور دیگر میل میلاپ کی جگہوں پر آوازیں کستے بالکل شرم محسوس نہیں کرتا، بلکہ اپنے احباب میں خود کو ہیرو گردانتا ہے۔ اسی کارِ بد میں ہمارا میڈیا بھی پیش پیش ہے اور اپنی آمدن کو بڑھانے کے لیے کچھ کرنے کو تیار بھی رہتا ہے اور ترغیب بھی دیتا ہے۔ ہمارے بیشتر چینل ایسے اشتہارات چلاتے ہیں کہ حیادار انسان تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے، لیکن نام نہاد جدت پسند اُسی کو سراہتے پھرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو دکھایا جا رہا ہے، یا کیا جا رہا ہے؟ کسی مہلک وبا سے کم تو نہیں، بلکہ یہ تو ایسی وبا ہے جس کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ اگر عقلِ سلیم کو کام میں لایا جائے تو زرا اُن معصوم لوگوں کے بارے میں بھی سوچنا لازم ہو گا، جو اس معاشرتی بے راہ روی سے نفرت رکھتے ہیں، لیکن وہ بھی مغربی جدت پسند لوگوں اور اداروں کے ہاتھوں مجبور و لاچار ہیں اور اسی چکی میں پس رہے ہیں۔
اب رہی حکمرانوں کی بات تو وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر وہ بھی چپ کا روزہ رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ کچھ حکمران اور سیاست دان تو اس بے راہ روی کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اس سے خوب استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود میرا جسم میری مرضی جیسے نظریات کی ترقی میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں؟ جبکہ مومن مرد و عورت کا جسم تو اللہ کی امانت ہے۔ تب ہی تو اللہ نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ کیا ایسے خیالات کے اظہار کرنے والوں اور ایسے خیالات کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی نہیں ہونی چاہیئے؟ کیا سیاست دانوں اور حکمرانوں کو کوئی ادارہ پوچھ سکتا ہے کہ تم نے حلف کیا اٹھایا تھا اور کس قانون کے تحت اٹھایا تھا؟ فی زمانہ یہی جواب آئے گا کہ کوئی نہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ جدت پسندی کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ ملکی ادارے ایک دوسرے سے سبقت لینے کے در پے ہیں اور چشم پوشی کو مصلحت سمجھتے ہیں۔ حکمران ایسے ہوں گے تو جرائم سرِعام ہوں گے، کیونکہ جس معاشرے میں سزا و جزا کو بالائے طاق رکھا جائے تو وہاں انسان کم اور شیطان زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ حکمران بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں جن کا انتخاب بھی اسی معاشرے کی عوام کرتی ہے۔ جب عوام ہی اپنے ووٹ کا استعمال کردار کو دیکھ کر نہیں بلکہ اپنی سیاسی وابستگی کی بنا پر کرتی ہے تو اچھے حکمران کہاں سے آئیں گے اور اللہ پاک بھی ارشار فرماتا ہے کہ ”لوگوں پر ان کے جیسے ہی حکمران مسلط کیئے جاتے ہیں۔“ اگر ووٹ کا استعمال اسلامی وابستگی پر کیا ہوتا تو آج دنیا کے نقشے پر ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر جانا جاتا۔ ایسے میں عقل کے اندھوں کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ آج اہل مغرب بے راہ روی اور میرا جسم میری مرضی جیسی لعنت سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں تب ہی اسلام کے نور کو اپنے سینوں سے منور کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ جدت پسند تو وہ نو مسلم ہیں جو لا دینیت سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔
اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی صورت میں ایک کامل انسان کو اسلامی معاشرے کی تربیت کے لیے ایک مثال بنا کر بھیجا، جنھوں نے انسان کو جہالت کے اندھیرے سے نکالا، لیکن عصرِ حاضر کے مسلمان نے جہالت کی طرف رجوع کرنے کو جدت کے نام سے منسوب کر دیا۔ محبت کے نام پر لا تعداد لڑکیاں جسم فروشی کی طرف مائل ہیں، نہ عزت محفوظ ہے نہ ہی کسی کی جان محفوظ ہے۔ آج کے دور میں نا صرف انسان بلکہ جانور بھی جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا پھر بھی ہمارا معاشرہ انسانی معاشرہ کہلانے کے لائق رہ گیا ہے؟
برصغیر کے مسلمانوں نے علیحدہ وطن پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو جدوجہد کی تھی اُس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے اور وہ اپنی مملکت میں بلا روک ٹوک اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ جس مملکت کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اور جس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس وقت کے کروڑوں مسلمانوں نے نہ صرف قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا ساتھ دیا، بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن صد افسوس کہ علامہ اقبالؒ کا خواب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی کوششوں سے ایک خطہ ارضی کی حد تک تو پورا ہو سکا، لیکن پاکستانی قوم اور حکمران اس مملکت کو اسلامی نظام دینے سے قاصر رہے۔ جب تک ہم خود کی طرف نہیں دیکھیں گے، دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے تب تک جرائم ہوتے رہیں گے۔ اس مملکت خدا داد کو مل کر سنوارنا ہوگا ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے دین کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اپنے حقوق سے زیادہ اپنے فرائض پر توجہ دینی ہو گی تب جا کر اس معاشرے سے گندگی کا دلدل ختم ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کی مقدر کا ستارہ