جہاں دنیا اتنی ترقی کر رہی ہے اور روز بروز نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کروارہی ہے وہاں پاکستان جیسا ملک آج بھی بھوک جیسے مسائل سے لڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ فوڈ سکیورٹی کلسٹر (ایف ایس سی) کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے بعد سے پاکستان میں قحط سالی کا معمول بن چکا ہے۔ جس کی بڑی وجہ پاکستان میں آنے والے زلزلے، سیلاب اور شدید موسم ہیں۔ جس نے سب سے زیادہ سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کے کچھ حصوں میں معاش اور گھریلو خوراک کی حفاظت کو متاثر کیا ہے۔ ایف ایس سی نے اندازہ لگایا ہے کہ خشک سالی نے 2019 میں بلوچستان اور سندھ کے 26 اضلاع میں لگ بھگ پانچ ملین افراد کو متاثر کیا ۔ انٹیگریٹڈ سیکورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق جولائی 2019 تک صوبہ سندھ میں خشک سالی سے متاثرہ 7 اضلاع میں تقریبا 13 لاکھ افراد (آئی پی سی 3) اور ایمرجنسی ( آئی پی سی 4) میں شدید غذائی تحفظ کی سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی رابطہ کمیٹی(او سی ایچ اے) کی رپورٹ کے مطابق جنوری کے وسط اور شروع میں آزاد جموں و کشمیر ( اے جے کے) اور گلگت بلتستان کے علاقوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا ( کے پی کے) صوبوں میں شدید بارش اور برفباری سے تقریبا 10 لاکھ گھر متاثر ہوئے۔ او سی ایچ ایچ اے کے مطابق، جنوری کے آخر تک سڑکوں کی رکاوٹوں اور شدید موسم نے متاثرہ گھرانوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے سے روک دیا۔ اور وہاں پر امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 سے ظاہر ہوا ہے کہ٪ 36.9 فیصد آبادی کو کھانے کی عدم تحفظ کا سامنا ہے اس کی وجہ آبادی کا سب سے غریب اور کمزور طبقہ رہا جس میں خاص طور پر خواتین اس کا شکار ہوئیں جن کی غذا تک محدود رسائی ہے۔ ۔ سروے میں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ کہ پانچ سال سے کم عمر کے٪ 18 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔٪ 40 فیصد بچے اسی عمر کے جن کی نشوونما نہیں ہو رہی۔ اور٪ 29 فیصد بچے کم وزن ہیں۔ تاہم قومی تکمیلی اشارے قابل قبول سطح سے بہت نیچے ہیں ۔ 6 سے 23 ماہ کی عمر کے 7 میں سے صرف ایک بچے کو کم سے کم غذائی تنوع کے ساتھ کھانا ملتا ہے۔ اور ایک دن میں تقریبا ٪82فیصد بچے کم سے کم کھانے سے بھی محروم ہیں۔
پاکستان خوراک جیسے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ 2020 میں دنیا بھر میں پھیلنے والی وبا کووڈ-19 نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے ملک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔ یہ حال اور بھی خراب ہوتا چلا گیا جب وبائی بحران کے نتیجے میں کاروبار،کسان اور مزدور طبقہ روزی کمانے سے محروم رہا۔ کورونا وائرس میں صرف اموات ہی نہیں ہوئیں ہیں بلکہ لوگوں کی دو وقت کی روٹی بھی چھن گئی ۔ کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے جہاں پاکستان کے مختلف حصوں سے لوگ معاش کی غرض سے آتے ہیں۔ ان سب کے ذریعہ معاش کو کورونا کی وبا سے نقصان پہنچا۔ ایک اندازے کے مطابق، کراچی میں 15 سے 16 ہزار چھوٹے بڑے دھابے ہیں،جن میں اوسطا ایک ڈھابے پر 8 سے 10 مزدور کام کرتے ہیں جو کہ یومیہ 500 سے لے کر ہزار روپے مزدوری پر ہوتے ہیں یعنی کم و بیش ڈیڑھ لاکھ خاندان ان سے چل رہا ہوتا ہے۔ سب کی مزدوریاں کرونا کی وبا کی نظر ہوگئیں۔
اب جیسے وبائی امراض کا صدمہ کافی نہ تھا کہ صحرائی ٹڈیوں کے ہجوم نے فصلوں پر حملہ کر کے تمام فصلیں تباہ کر دیں۔ صحرائی ٹڈیوں کی خطرناک حد تک فصلیں تباہ کرنے سے ملک کو دو بڑے جھٹکے لگے جس سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ انہوں نے ملک میں غذائی عدم تحفظ اور بھوک کے اعلی خطرہ پیدا کر دیا جس میں اصل مسئلہ کھانے کی نہ دستیابی رہا۔ خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب ان ٹڈی دل کا نشانہ بنے۔ پاکستان میں قومی ضرورت سے زیادہ اناج کی فصلیں،گندم اور چاول پیدا ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کی فوڈ پالیسی اپنے شہریوں خاص طور پر غریب اور کمزور طبقوں کو خوراک بانٹنے میں ناکام رہی۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچرل اورگنائزیشن ( ایف اے او) نے 2020 میں انتباہ کیا تھا کہ فصلوں کو ہونے والے نقصانات کی شدت سے کھانے پینے کی حفاظت اور متاثرہ طبقوں کے معاش کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ایف اے او نے 5.1 بلین ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات کی پیشگوئی کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ 2020 میں پاکستان کا نمبر 102 ملکوں میں میں بھوک و افلاس میں 88 نمبر پر رہا۔ 2020 میں پاکستان کی12.3٪ فیصد آبادی غذائیت کا شکار رہی۔ جس میں 5 سال سے کم عمر کے 7.1 فیصد بچے ضائع ہو گئے۔ 5 سال سے کم عمر کے 37.6٪ فیصد بچے بچے وہ ہیں جن کی ذہنی نشو نما نہیں ہو رہی جبکہ 6.9٪ فیصد بچے وہ ہیں جو 5 سال کے ہونے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کئی علاقے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہزاروں انسان خوراک نہ ملنے سے مر جاتے ہیں۔ اگر اب بھی حکومت پاکستان نے اس پر توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں پاکستان کا حال اور برا ہو جائے گا۔