اسلامی معاشرت اور ہم

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثْریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اسلام کی پرشکوہ عمارت جن اصول اور بنیادوں پر قائم ہے انہی میں سے ایک اہم ’’معاشرت ‘‘ بھی ہے، شریعتِ مطہرہ نے اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے کیوں کہ یہ حقوق العباد کی قبیل سے ہے اور معاشرت دراصل ’’ اجتماعی زندگی میں رشتے داروں کے درمیان اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے ، اور ہر ایک طبیعت اور مزاج کی رعایت کرنے، اور ہر ایک سے نباہ کرلینے‘‘ کا نام ہے۔شریعتِ مطہرہ نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنی پاکیزہ اور روشن تعلیمات سے ہمیں جینے کا سلیقہ سکھایالیکن آج ہماری جو صورت حال ہے وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہے، بنیادی وجہ معاشرتی حقوق سے ناواقفیت اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے یہی وجہ ہے کہ ہر روز طلاق اور خلع کے مسائل پیش آرہے ہیں، لڑائی جھگڑوں کے کیسسز سامنے آرہے ہیں،ماں باپ اولاد کی تربیت کے فرائض سے بے خبر ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ اولاد بھی ماں باپ کے آدابِ تعظیمی اور حقوقِ لازمی سے ناواقف ہے اور اسی وجہ سے آج نہ بڑوں کا کوئی ادب ہے نہ چھوٹوں پر شفقت حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے حقوق سے آگے بڑھ کر دوسروں کے حقوق کی رعایت کی جائے اور ہر ایک سے ادب و احترام سے پیش آئیں ۔چنانچہ زندگی میں چین و سکون، اور گھروں میں پیار ومحبت کی فضاء قائم ہونے کے لئے معاشرتی حقوق سے واقفیت اور ان کی رعایت از بس ضروری ہے اسی وجہ سے کتاب و سنت میں جا بجا معاشرتی حقوق کا درس دیا گیا ہے ۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو !’’ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو، جب تک اجازت نہ لے لو‘‘۔اور اسی طرح ایک آیت میں فرمایا: اے ایمان والو ! ’[جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں گنجائش پیدا کرو تو گنجائش پیدا کیا کرو ، اللہ بھی تمہارے لئے کشادگی پیدا فرمادیں گے اور جب کہا جائے کہ اْٹھ کھڑے ہو تو اْٹھ کر کھڑے ہوجایا کرو ‘‘ان آیات میں ایک دوسرے کی رعایت کرنے اور ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کا درس دیا گیا ہے، اور اسی طرح بیشمار احادیثِ نبویہ میں بھی مختلف پیرائیوں سے معاشرتی حقوق کی تعلیم دی گئی ہے؛ نبی ؐ نے فرمایا: ’’ایک ساتھ کھانے کے وقت دو چھوارے ایک ساتھ نہ لینا چاہیے؛ تا وقت تک کہ اپنے رفیقوں سے اجازت نہ لے لے ‘‘ایک اور حدیث میں ہے کہ’’ مہمان پرحلال نہیں کہ میزبان کے پاس اس قدر قیام کرے کہ وہ تنگ ہوجائے، ‘‘
اور اسی طرح جو لوگ مریض کی عیادت اور تیمارداری کے لیے جائے تو ان کے لیے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے؛ تاکہ اس پر گرانی اور بوجھ نہ ہو، (مشکوٰۃ شریف)ذرا غور کریں کہ ان احادیث میں ایک نہایت خفیف امر سے محض اس وجہ سے کہ دوسروں کو ناگواری ہوگی، دوسروں کے دل پر تنگی ہوگی ممانعت کردی۔
ایک مرتبہ حضرت جابر ؓ درِ دولت پر حاضر ہوئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں ہوں، آپ ؐنے ناگواری سے فرمایا : ’’ میں ہوں میں ہوں‘‘، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل صاف کہے کہ جس کو دوسرا سمجھ سکے، ایسی گول مول بات کہنا جسے سمجھنے والا تکلیف میں پڑ جائے، اور الجھن کا شکار ہو جائے، یہ بالکل مناسب نہیں۔اور خود نبی ؐنے عملی طور پر بھی اس کا نمونہ پیش کیا؛ جیسا کہ آپ کے بارے میں منقول ہے کہ ’’ جب آپ ؐ گھر میں تشریف لاتے تو اتنا آہستہ سلام کرتے کہ جو جاگ رہے ہوتے وہ سن لیتے اور جو سورہے ہیں ان کی نیند میں خلل نہ ہوتا۔‘‘اور صحابہ کرام ؓ بھی اس کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو جو شخص جس جگہ پہنچ جاتا وہاں ہی بیٹھ جاتا ۔یعنی لوگوں کو چیر پھاڑ کر آگے نہیں بڑھتا، کہ ان کو تکلیف نہ ہوجائے ؛ لیکن آج ہمارا جو حال ہے وہ ناقابل بیان ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہمیں معاشرت سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر ہماری رہنمائی کی ہے اور ہر ایک کے الگ الگ حقوق بتائے ہیں۔شوہروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نبی ؐ کے اس فرمان کو اپنے ذہن و دماغ کے دریچے میں اچھی طرح اتاریں: ’’ سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوکرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاوکرنے والا ہوں ‘‘ ۔بیویوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آئیں اس کا بڑا مقام ہے؛ جیسا کہ نبی ؐ نے فرمایا:’’ اگر میں کسی کو یہ حکم کرتا کہ وہ کسی (غیراللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کوحکم کرتا کہ وہ اپنے خاوندکو سجدہ کرے۔‘‘اس حدیث سے بھی شوہر کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اولاد پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نبی ؐ کے اس فرمان کو ذہن نشین کرلیں کہ ایک شخص نے پوچھا، اے اللہ کے رسولؐ! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاؤ گے، ان نافرمانی کروگے تو دوزخ میں جاؤگے) ۔والدین پر فرض ہے کہ وہ نبی ؐکے اس ارشاد سے بالکل صرف نظر نہ کرے، انہوں نے فرمایا: ’’ ایک باپ کا اپنے بیٹے پر ادب سکھانے سے بڑھ کر اور کوئی احسان نہیں ہے‘‘۔ لیکن ہماری جو حالت زار ہے وہ محتاجِ بیان نہیں،دین سے دور لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ! دین دار لوگ بھی اسی میں گرفتار ہیں، آج کل تو بس ہر گھر حقوق تلفی کی آگ میں جھلس رہا ہے، ہر بہن بیٹی کی یہی فریاد ہے، ہر شخص کی زبان بس ایک دوسرے کا شکوہ کر رہی ہے، کسی کو ذرا یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف تو نہیں ہورہی ہے، کسی کے دل پر کیا گذرے گی، بہت سوچنے کا مقام ہے، فکر کرنے کی ضرورت ہے، یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اپنے اندر تبدیلی لانا پڑے گاکیوں کہ جب تک تبدیلی نہیں ہوگی تو خوشحال زندگی کی تمنا کرنا سعی لاحاصل ہے۔