کتے کی دُم
ایک شخص کو بھوت قابو کرنے کا جنون ہوگیا، بہت چلے کاٹے، جنترمنتر سیکھے، بستی بستی گھوما کہ کوئی پیر مل جائے جو جن بھوت بس میں کرنے کا طریقہ بتا دے۔ کئی سالوں کی ریاضت کے بعد اسے پتا چلا کہ فلاں پہاڑ کے دامن میں ایک سادھو رہتا ہے جو بھوتوں کو بس میں کرنے کا علم رکھتا ہے۔ اس نے ایک طویل تلاش کے بعد سادھو تک رسائی حاصل کر لی اور خاموشی سے اس کی خدمت میں لگ گیا۔ سالوں بعد ایک دن سادھو نے اس سے کہا کہ، میں جانتا ہوں کس شے کا جنون تجھے میرے پاس لایا ہے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تیری یہ خواہش بہت خطرناک ہے کیونکہ تم نے اگر اسے قابومیں کر لیا تو اسے ہمیشہ مصروف نہ رکھ سکو گے اور آخر میں وہ تمہیں ہی کھا جائے گا۔ وہ بولا آپ منتر بتائیں میں قابو کرلوں گا۔ سادھو نے اسے منتر بتا دیا۔
مقررہ میعاد تک منتر پڑھنے سے بھوت حاضر ہوگیا،
بھوت بولا!!! بتاؤ کیا کروں ؟
اس نے کہا ایک عالیشان محل تعمیر کرو،
محل تعمیر ہو گیا،
پھر کہا اسے قیمتی خزانوں، نوکروں اور کنیزوں سے بھر دو۔
یہ بھی ہوگیا۔
پھر کہا ! بہترین کھانوں کا بندوبست کرو۔
وہ بھی ہو گیا۔
غرض بھوت نے اس کے ہر حکم کی تعمیل کر دی۔ اب بھوت بولا کوئی اور کام بتاؤ، ورنہ میں تمہیں کھا جاؤں گا۔وہ آدمی پریشان ہو کر سادھو کے پاس گیا کہ آپ نے صحیح کہا تھا میرے پاس تو کوئی کام نہیں بچا، کروانے کو،آپ مجھے بچائیے اس بھوت سے ۔
سادھو نے ایک کتا اسے دیااور کہا بھوت سے کہو کہ اس کی دم سیدھی کردے۔ بھوت نے کتے کی دم ہاتھ میں لی اور سیدھی کر دی، لیکن جیسے ہی چھوڑی وہ پھر ٹیڑھی ہوگئی۔ مطلب بھوت کو کبھی نہ ختم ہونے والا کام مل گیا۔
ہم پاکستانی بھی کئی عشروں سے دمیں سیدھی کرنے کے جتن کر رہے ہیں، بھوت سے تو ایک دُم سیدھی نہ ہو سکی، اور ہم اتنے ڈھیر سارے رہنماؤں کی دُمیں سیدھی کرنے کے جتن کر رہے ہیں، جو کہ کبھی ہونا ممکن نہیں۔ قوم کو ہی اپنے اعمال تبدیل کرنے پڑیں گے ورنہ یہاں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔