پاکستان ریلوے جس کا ماٹو ہے سیفٹی فرسٹ لیکن پے در پے حادثات کی وجہ سے ریلوے جیسا محفوظ ذریعہ سفر کو پاکستان میں خطرناک حد تک غیرمحفوظ تصور کیا جانے لگا ہے۔ پیر کو علی الصبح ڈہرکی ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک اور بدترین ریلوے حادثہ پیش آیا جس کی نذر ہوکر خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 65 افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہیں۔ اگر ریلوے حادثات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ماضی کے زیادہ تر حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوئے لیکن گزشتہ 15 سالوں میں رونما ہونے والے تمام چھوٹے بڑے ریلوے حادثات کا سبب کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی و پوسٹنگ ہے۔ حادثات کی بنیادی وجہ کا علم ہونے کے باوجود ریلوے حکام کی سوچ کا یہ عالم ہے کہ وہ سانحہ ڈہرکی کو اضافی فنڈز کے حصول کے لیے موقع غنیمت جان کر بطور کارڈ کیش کروارہے ہیں۔ میڈیا میں ڈی ایس سکھر کا بیان گردش میں ہے جس کے مطابق سکھر ڈویژن کا ریلوے ٹریک خطرناک حد تک ناقص ہے اور 13 مقامات ایسے ہیں جہاں ٹرین چلنے کا قابل نہیں جن میں جائے حادثہ بھی شامل ہے۔ اگر واقعی ایسی بات تھی تو ڈی ایس سکھر صاحب سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے کہ جب ٹریک فٹ نہیں تھا تو انجینئرنگ ریسٹرکشنز کیوں نہیں لگائی گئیں اور ریل و عوام کی حفاظت مقدم کو یقینی بنانے کے لیے جنرل رولز کے مطابق بنیادی اقدامات تک کیوں نہ اٹھائے گئے؟ اگر واقعی ایسا معاملہ تھا تو FGIR صاحب نے ٹریک کو تیز رفتار ٹرین چلانے کے لیے فٹ کیسے دے دیا؟ اس کے علاوہ جنرل رول 195 اور 196 کے مطابق PWI اور AWIذمہ دار ہیں روزانہ کی بنیاد پر اپنے سیکشن کے ٹریک کا معائنہ کریں بلکہ پیدل چل کر دیکھیں۔ اگر کہیں ٹریک مرمّت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو AWI/PWI صاحبان فوراً انجینئرنگ مینول کے تحت ER نافذ کردیتے ہیں اور اسٹیشن ماسٹر OP-354 کے زریعے ڈرائیور صاحبان کو رفتار و دیگر احتیاط پر عمل کرنے کا پابند کردیتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چابی والا ٹریک پر پیدل چل کر معائنہ کرتا ہے اس کے علاوہ اسسٹنٹ انجینئر و ڈویژنل انجینئر ہفتہ یا ماہانہ بنیاد پر معائنہ کرنے کے مجاز ہیں لیکن یہ صاحبان ٹھنڈے آفس سے باہر نکلنے کی زحمت تک نہیں کرتے۔ یہ کہنا کہ ریلوے ٹریک بوسیدہ و پرانا ہے ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ پاکستان میں تقریباً 120 اور 150 پونڈ لائن UIC کے جدید تقاضوں کے مطابق بچھائی گئی ہے جوکہ دنیا کی جدید ترین ریلوے پٹڑی ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ اسے ریلوے انجینئرنگ کے قوانین کے مطابق نہیں بچھایا گیا نہ ہی اس کے مطابق رنیول یا اپ گریڈیشن کی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔ راقم السطور خود عینی شاہد ہے کہ ٹریک رنیول و اپ گریڈیشن میں ایک بالیسٹ ٹرین یعنی پتھر کی گاڑی ریکارڈ میں تین سے پانچ ظاہر کردی جاتی ہیں اور وہ ایسے کہ لوڈ ٹرین آتی ہے اسکی ایک ویگن خالی کی جاتی ہے باقی واپس اور پھر اگلے دن وہی پھر نئی ٹرین بن کر آجاتی ہے اس کے علاوہ پتھر کی کوالٹی بھی معیاری نہیں ہوتی۔ ٹریک کی حفاظت و دیکھ بھال پر مامور عملہ یعنی گن مین حضرات کی اکثریت یا تو افسران کے بنگلوں گھروں پر خدمت کے لیے تعینات ہیں جس کی وجہ سے ٹریک کی ضرورت کے مطابق دیکھ بھال نہیں ہوپاتی۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
کے مصداق ریلوے حکام ٹریک ناقص ہونے کے بیان کو دباتے ہوے حادثے کی ابتدائی رپورٹ میں پٹڑی کی دائیں طرف کا ویلڈنگ ریل جوائنٹ ٹوٹا ہونا حادثے کا سبب قرار دیا ہے جوکہ حکومت و قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ریل جوائنٹ ٹوٹنے سے ٹرین ڈی ریل ہوجائے کیونکہ اس کے باوجود ریل اپنی جگہ ٹکی رہتی ہے ہر سلیپر کے ساتھ نٹ بولٹ وہ بھی زیادہ تر ویلڈ نٹ بولٹ پٹری کو دونوں اطراف سے جکڑے رکھتے ہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملّت ایکسپریس کا انجن اور متعدد کوچز کیسے پاس ہوگئیں اور ٹرین پارٹ کیوں ہوئی جس کے نتیجے میں پچھلی کوچز ڈی ریل ہوئیں۔ یکساں نوعیت کا حادثہ کچھ ماہ پہلے روہڑی کے مقام پر کراچی ایکسپریس کپلنگ ٹوٹ کر دو حصوں میں پارٹ ہوئی نتیجتاً ڈی ریل ہوئی۔ بالکل اسی طرح ملّت ایکسپریس دو حصوں میں پارٹ ہوئی اور اس کی کچھ کوچز ڈی ریل ہوکر ڈاؤن ٹریک پر آگئیں اور دو سے تین منٹ بعد سرسید ایکسپریس آکر ان سے ٹکراگئی۔ ملت ایکسپریس کا عملہ ریلوے قوانین کے مطابق احتیاطی تدبیر اپناتے تو نقصان سے بچا جاسکتا تھا، جیسا کہ رات کے وقت دس کلومیٹر دور سے نظر آجاتا ہے ٹرین آرہی ہے اور یہ تو ہے بھی فلیٹ سیکشن، ایسے میں ملت ایکسپریس کے ڈرائیور کو چاہئے تھا کہ خطرے کا وسل کوڈ استعمال کرتے جوکہ مسلسل ہارن ہے اور ہیڈلائٹ سے و ٹارچ سے ڈرائیور و اسسٹنٹ ڈرائیور کو کوشش ضرور کرنی چاہئے تھی کہ سرسید ایکسپریس کا ڈرائیور آگاہ ہوپاتا آگے خطرہ ہے تو شاید وہ کنٹرول اسپیڈ کے ساتھ آتا۔
2008 سے 2013 ریلوے تاریخ کا بدترین دور ہے جب ایک دن میں بیسیوں انجن فیل ہوا کرتے تھے، وزیر صاحب تو اعلانیہ روڈ ٹرانسپورٹ کے پروموٹر تھے لیکن کسی نے سوال تک نہ پوچھا کہ اچانک ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی جو انجن فیل ہونے کا سلسلہ چل نکلا اور جب سعد رفیق آئے تو وہ موٹریں جو انجن سے نکالی ہوئی تھیں واپس انجن میں لگادی گئیں تو ریلوے بحال ہوگیا۔ آج بھی وہی صورتحال ہے حکومت شعبہ انجینئرنگ بالخصوص کیرج ویگن، پی وے اینڈ برجز یعنی شعبہ ٹریک اور مکینکل پر ٹیکنیکل افراد کی مدد سے صرف ایک ہفتہ سنجیدگی سے دلچسپی لے لے تو عین ممکن ہے نہ حادثہ ہوگا نہ نظام اوقات میں بگاڑ آئیگا نہ ہی خسارہ بچے گا کیونکہ نہ تو ریلوے کا نظام بوسیدہ ہے نہ ہی ریل خسارے میں ہے بلکہ خسارے میں ڈالا ہوا ہے، ریلوے بجٹ اور آمدن کا زیادہ تر حصہ انجینئرنگ شعبے میں لگ رہا ہے اور نظام پھر بھی بوسیدہ، سوچنے کی بات ہے بالخصوص کپتان اور وزیر صاحب کو ضرور سوچنا چاہئے۔