کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے نہ جانے کن کن مسائل کا شکار ہے۔ مسائل کا انبار اس قدر زیادہ ہے کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں ہے۔ کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جس سے پورا ملک چلتا ہے جس کی ضرورت پورے ملک کو ہے۔ یعنی اس ملک میں کراچی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ جس کے بل بوتے پر سارا ملک کھڑا ہے۔ لیکن جب یہ ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو کر گر جائے گی تو باقی سارا ملک کیسے کھڑا رہ سکتا ہے
سب سے زیادہ صنعتکاری کرنے والا اور معیشت والا یہ شہر آج خود بہت سے مسائل کا شکار ہے اور مسائل بھی معمولی نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا شہر شدید پانی کے بحران کا شکار ہے۔ 2018 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے شہر کی آبادی میں تقریبا 2.4 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آبادی میں اضافے کے باوجود شہر میں گذشتہ کئی سالوں سے پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی صورت حال بہتر ہوتی نظر آئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شہر کو اپنی ضرورت سے 56 فیصد پانی کم فراہم کیا جارہا ہے۔ آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوتا نظر نہیں آرہا اور نہ کوئی منصوبہ بندی صحیح معنوں میں نظر آتی ہے۔ پانی کی فراہمی کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہےجس کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ عوام نے اس مسئلےکا حل یہ تجویز کیا کہ گھروں میں بورنگ کروانا شروع کردی شہرمیں بڑی تعدادمیں لوگ بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ عالمی اداہ صحت (WHO) کے مطابق عام طور پر پانی میں میں 500 ٹی ڈی ایس(ٹوٹل ڈزالو سالٹ) ہوتے ہیں جو انسانی استعمال کے قابل ہوتے ہیں لیکن کراچی کے زیر زمین موجود پانی میں 3 ہزار سے 35 ہزار کے درمیان ٹی ڈی ایس پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ لیکن حالات سے مجبور عوام اور کرے بھی تو کیا کرے۔ عوام اس پانی کو پینے کے علاوہ دیگر کاموں میں استعمال کرتی ہے لیکن پینے کے پانی کے لئے فلٹر واٹر ہی خریدنا پڑتا ہے جو کہ پانی کے اس بحران میں بہترین کاروبار کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں جب پینے تک کا پانی خریدنا پڑے تو عوام کا دیوالیہ ہوجا تا ہے۔ ملک میں مہنگائی میں اضافے ہونے کے سبب اب یہ پانی بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ کم آمدنی رکھنے والے افراد اسی گندے پانی کو پینے پر مجبور ہیں جو کہ ان کے لیے انتہائی مہلک ہے۔شہر کے چند علاقوں میں ہی صاف پانی کی فراہمی ہے لیکن یہاں بھی اس کی فراہمی کافی دنوں تک تعطل کا شکار رہتی ہے۔
کراچی کو دو مختلف ذرائع سے پانی فراہم کیا جاتا ہیں ایک دریائے سندھ اور دوسرا حب ڈیم اور دونوں ہی شہر سے تقریبا 150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ دریائے سندھ سے پانی دھابیجی کے مقام پر پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں سے وہ پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے مختلف مقامات پر پہنچتا ہے۔ یہ پمپنگ اسٹیشن 60 سال سے قائم ہے اور اس کے پمپ انتہائی پرانے ہیں اور اس وجہ سے درست طور پر کام کرنے سے قاصر ہیں اور اس وجہ سے بھی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کا جو دوسرا ذریعہ ہے وہ ہے حب ڈیم جو بلوچستان میں واقع ہے لیکن اس حب ڈیم میں پانی صرف اسی صورت میں ہوتا ہے کہ جب بارش وافر مقدار میں ہو۔
شہر میں پانی کی روزانہ ضرورت تقریبا 915 ملین گیلن ہے لیکن ان دنوں ذرائع سے مجموعی طور پر کراچی کو 580 ملین گیلن کے لگ بھگ یومیہ پانی فراہم کیا جاتا ہے جس میں سے بوسیدہ نظام کی وجہ سے 174 ملین گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے اور بامشکل شہر کو 406 ملین گیلن پانی نصیب ہوتا ہے جو کہ اس کراچی کی ضرورت کا صرف 44 فیصد حصہ ہے۔
کراچی میں پانی کے شدید بحران کی وجوہات میں سے چند یہ ہیں کہ ٹینکر مافیا، ناانصافی سے کی گئی تقسیم، بوسیدہ نظام اور عوام کا پانی کا ٹیکس ادا نہ کرنا ہے۔ شہر میں پانی کی فراہمی کے لیے انتظامیہ نے 5 قانونی بائیڈرنٹس قائم کیے ہوئے ہیں جہاں سے شہریوں کو ٹینکر کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی کنگنشنز کے ذریعے پانی کی چوری معمول کی بات ہے۔ دوسری وجہ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ کہیں تو عوام ترس رہی ہے قطاروں میں کھڑی ہے تو کہیں پر 24 گھنٹے پانی آتا ہے اور بہہ رہا ہوتا ہے اور کہیں پر مہینوں سے پانی نہیں آرہا اور عوام بوند بوند کو ترس رہی ہے۔
پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے جو منصوبے جاری ہیں ان میں کے”K4” جو زیر تکمیل ہے اور اس کا مقصد شہر میں اضافی پانی کی سپلائی ہے یہ شہر کو مجموعی طور پر 650 ملین گیلن پانی یومیہ فراہم کرے گا،منصوبے کے ابتدائی ادوار میں 260 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جائے گا جب کہ تیسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن پانی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن یہ منصوبہ پچھلے پندرہ سال سے تاخیر کا شکار ہے اور اس پر لگنے والی لاگت بھی 15 ارب سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس k4 منصوبے کو جلد ازجلد مکمل کرےتاکہ اہل کراچی کوپانی کےاس دیرینہ مسئلہ سے نجات مل سکے اور شہر ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔