آج کل سوشل میڈیا پر فلسطینی مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے۔غزہ جو کہ ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس وقت اسرائیل کی جانب سے وہاں قیامت صغرہ برپا کردی گئی ہے-لہو لہان جوان،زخموں سے چور بچے،مرد و خواتین جن کے سینے چھلنی کردیے جاتے ہیں-بلند وباگ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن کر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں اور ہزاروں مکین معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔وہ باپ جس نے اپنے بیوی ،بچوں کی لاشوں پہ ماتم کے بجائے انھیں شہید ہو کر جنت پا لینے کی مبارکباد دی اور جب ایک بچے کے بچ جانے کی نوید سنی تو سجدہ شکر بجا لایا۔وہ جوان جس نے آنے والے دنوں میں شادی کے بعد نئی زندگی اردہ باندھا تھا اپنے خوابوں کو منگیتر کی شہادت کی صورت میں بکھرتا دیکھ کر بھی مسکرایا اور رب سے ابدی جنتوں اعلی مقا م ملنے کی دعائیں کرتا رہا- فلسطین کی وہ بیٹی جو ہتھکڑیاں بھی مسکرا کر پہنتی ہے کہ گویا اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنادیے گئے ہوں -سلام ہے ان ماؤں،بہنوں،بیٹیوں اور بیٹوں کو جو پہاڑ جیسا حوصلہ رکھ کر ہر افتاد کے آگے آہنی چٹان بن کر مقابلہ کرتے ہیں -مظلوموں سے یکجہتی اور ظالموں کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے کیے جارہے ہیں مگر کیا اتنا کافی ہے؟کبھی جو گھر میں آگ لگ جائے تو کیا اس کو بجھانے میں آخری حد تک نہیں جاتے یا بس پانی کے چند قطرے چھڑک کر خدا کی مدد کا انتظار کرتے ہیں-؟
آج امت مسلمہ کے 57 اسلامی ممالک کے سربراہان سے سوال ہے کہ اسرائیل جو دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹے سے خطے کے طور پر نظر آتا ہے وہ اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ شہری آبادی پر بم برسا کر انھیں ملبوں کے ڈھیر میں بدل دیتا ہے ۔نہتے نمازیوں پہ گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انھیں زخمی اور شہید کر دیتا ہے- مسلمان حکمران آخر کب تک اپنے تخت و تاج بچانے کی فکر میں خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟عرب حکمران اپنے بڑے محل، عیش و عشرت نہیں چھوڑ سکتے تو کیا باقی مسلم ممالک بشمول پاکستان خارجہ پالیسی کے شکنجے میں پھنس کر کمزور ہو جائیں گے؟ اور امت کے سامنے مضبوط معیشت نہ ہونے کا رونا رو کرمظلوموں کی داد رسی نہ کرنے کا بہانہ بنائیں گے-عوام تو ویسے بھی معاشی طور پر کمزور ہی ہیں البتہ ارباب اختیار مقابلے کی سکت رکھتے ہوئے بھی مغرب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں- کچھ اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیلی جارحیت پر کچھ کہنے کی جسارت کی مگر یہ صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوئیں-
حکمران یاد رکھیں ۔! یہ وقت محض بیانات کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کا ہے اور اپنی پوزیشن کو واضح کرنے کا بھی کہ آیا ہم مظلوموں کا ساتھ دے کر اللہ کے گروہ میں کھڑے ہیں یا پھر ظالم کو ظلم سے نہ روک کر شیطان کے آلہ کار بن چکے ہیں-اقوام متحدہ جیسا نام نہاد انسانی حقوق کا علمبردار ادارہ جو محض مغربی اقوام کے ہی حقوق کا علمبردار دکھائی دیتا ہے اور اس کی سلاماتی کونسل جو آج تک مسئلہ کشمیر حل نہ کروا سکی بلکہ یوں کہیں کہ کروانا ہی نہیں چاھتی تو ان سے کیا توقع رکھی جائے؟ او ر مسلمان ممالک کے اتحاد کا ادارہ او آئی سی بھی اس ضمن میں کچھ کردار ادا کرنے میں ناکام ہے اور اس کے اجلاسوں میں بھی امت کے مسائل کے حل کی حمایت میں صرف میز ہی بجائی گئی ہے خدار ا-!امت مسلمہ کو بیوقوف بنانا بند کر دیں اور سنجیدگی سے نتیجے کے اس دن کی تیاری شروع کریں جس دن یہ مال و دولت یہ جاہ و حشمت کچھ کام نہ آئے گی بلکہ نیک اعمال کام آئیں گے ۔