کے الیکٹرک نے فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں نیپرا سے 6روپے 31پیسے بڑھانے کی درخواست کی ہے۔ اس درخواست میں کے الیکٹر ک نے موقف اختیار کیا ہے کہ ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 5روپے 95پیسے، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے لیے 36پیسے بجلی فی یونٹ مہنگی کی جائے، جس پر نیپرا نے کے الیکٹرک کی درخواست پر 15جون کو سماعت کا کہا ہے ۔ اس سے قبل بھی کے الیکٹرک ہزاروں مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کراچی کی عوام سے کھربوں روپے نکلوا کر ہڑپ کرچکا ہے۔
کراچی کو تباہ کرنے میں کے الیکٹرک نے جتنی محنت اور لگن سے دن رات کام کیا ہے اس کی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی۔ یہ پاکستان کا واحد پرائیوٹ ادارہ ہے جو دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے کے بعد بھی مزید بجلی کے بم کراچی پر گرانے کے لیے ہموقت تیار رہتا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کا سلسلہ اول روز سے جاری ہے جس پر آج تک ادارے نے دھیان نہیں دیا اور توجہ دے بھی کیوں ؟ اس سے تو وہ ماہانہ اربوں روپے کما رہا ہے۔
مگر افسوس ہمیں سرکاری اداروں پر ہوتا ہے جنہوںنے اس بدمعاش ادارے کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ یہ ہر ناجائز طریقے سے شہریوں کو لوٹ رہا ہے پھر ڈھٹائی سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی پیسے بٹور رہا ہے۔ تاہم اس کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ ادارہ صفر سے شروع ہوکر صفر پر ہی کھڑا نظرآئے گا۔ نہ اس کے پاس اضافی بجلی جمع کرنے کوئی ذریعہ ہے او ر نہ ہی ڈسٹریبیوشن کے معاملے میں اس نے کوئی کام کیا ہے۔ کے الیکٹرک کی تمام تر توجہ صرف بلنگ پر ہے ۔
کوئی شہری اگر ایک مہینہ بل نہ بھرے تو تاریخ گزرنے کے بعد ہر روز ایک گاڑی اس کے دروازے کے باہر آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور یہ یاد دہانی کراتی ہے کہ بل بھرلیں ورنہ آپ کی بجلی منقطع کردی جائے گی۔ اور اگر بجلی منقطع کردی گئی تو پھر سے اس کا جرمانہ بھی الگ سے بھرنا ہوگا۔ کے الیکٹرک کی پوری تاریخ جرمانوں سے بھری ہوئی ہے ، ہر چیز پراس نے جرمانہ عائد کر رکھا ہے، میٹرگھر کے باہر لگا ہے جو عوام کی ملکیت ہے ، مگر کے الیکٹرک اس کا بھی ماہانہ کرایہ عوام سے ہی بطور جرمانہ لیتا ہے ، اگر میٹر میںکوئی خرابی آجائے تو اوراسے تبدیل کرانا ہوتو اس کے لیے کئی دنوں تک متعلقہ ادارے کے فرعون افسران کے تلوے چاٹنے پڑتے ہیں اور ایک بھاری فیس کے ساتھ چند ہزار رشوت کے دیکر آپ کا میٹر تبدیل کرکے احسان عظیم کیاجاتا ہے ۔ اگر آپ کا بل اضافی ہے تو آپ کو اس کی کمپلین کرنے کے لیے بھی کئی روز تک متعلقہ دفاتر کے شیطان افسران کے سامنے گڑ گڑانا پڑے گا، اس کے بعد بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ آپ کا مسئلہ حل کردیں گے یا پھر سے آپ کو یہ کہہ ٹال دیاجائے گا کہ اب بلنگ ہوچکی ہے آپ کو لازمی بھرناہوگا۔
ہمارے محلے میں اس مرتبہ تمام لوگوں کے بل انتہاسے زیادہ آگئے۔ جس کے گھر میں ایک بلب اور ایک پنکھا ہے اس کے گھر کا بل بھی آٹھ ہزار روپے تک آیا ہے۔ جب کمپلین کرنے گئے تو فرعونوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ہاں غلطی سے بل اضافی آگیا ہے ، مگر اب تو آپ کو بھرنا ہوگا، اس پر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مطلب ان کی ہر غلطی کو آپ نے جرمانے کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی آپ کو بجلی زکوۃ کی طرح ملتی ہے ، بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد جب مہینے کے آخر میں بل ہاتھ میں آتا ہے تو اچھے اچھوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں ، میٹر میں ریڈنگ کچھ اور بتا رہی ہوتی ہے مگر ہاتھ میں آنے والے بل پر معاملات کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ بل اداکرنے کے بعد ہم پھر بجلی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند ماہ قبل جب میں بجلی کے بل میں اضافی رقم کے سلسلے میں ہیلپ لائن کال کی تو انہوںنے مجھ پر واضح کیا کہ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافی چارج لگائے گئے ہیں ، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ 2016کے فیول ایڈجسٹمنٹ کے چارج ہیں جو 2020 دسمبر تک چلیں گے۔ مطلب چار سال کے فیول ایڈجسٹمنٹ چھ ماہ میں وصول کرلیے۔ ان چھ ماہ میں کے الیکڑک نے کراچی والوں سے کم وبیش کھربوں روپے اضافی وصول کیے۔ تاہم جب اس سلسلے میں وفاقی ادارے نیپرا کی طرف سے وضاحت آئی کہ ہم نے کے الیکٹرک کو اس سلسلے میں کوئی فیول ایڈجسٹمنٹ کی اجازت نہیں دی تو ہاتھوں کے طوطے اڑگئے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ ادارہ واقعی پاکستان کا انتہائی طاقتور ادارہ ہے جو کچھ بھی کرلے مگر اس پرکوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ کے ریمارکس آج بھی یاد ہیں کہ کے الیکٹرک کو بھارت سے کنٹرول کیاجارہاہے اور یہ کراچی کو تباہ کرنے میں ملوث ہے، مگر آج تک کسی سرکاری ادارے نے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کہ اس کے خلاف تحقیقات کرکے قوم کو آگاہ کرتے۔
کے الیکٹرک کے خلاف اس وقت ہزاروں کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، مگر سمجھ نہیں آتا کہ اب تک اس کے خلاف کسی بھی کیس کوئی فیصلہ کیوں نہیں آیا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہوگی کہ یہ ادارہ پاکستان کے اداروں کے کنٹرول سے باہر ہے ،اور واقعی اسے بھارت سے کنٹرول کیاجارہاہے جو ہمیشہ پاکستان کی تباہی کا منتظر رہا ہے۔ اب جب بھارت پاکستان کو کسی طورپر تباہ نہیں کرسکا تو اس نے یہ کام کے الیکٹرک کے ذریعے کرنا شروع کردیااورآج کے الیکٹرک پاکستان کی معاشی شہہ رگ پر حملہ آور ہے اور اسے مکمل تباہ کرنے میں تلی ہوئی ہے مگر ہمارے ادارے خاموشی سے اپنا اپنا حصہ لے کر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔
گزشتہ روز گورنر سندھ نے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر ایکشن لیااور کہا کہ کے الیکٹرک اپنا قبلہ درست کرے ورنہ وفاق سے کہہ کر کوئی انتہائی اہم اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر کے الیکٹرک کو معلوم ہے کہ یہ گیڈر بھبکیاں ہیں جو آئے روز اسے سننے کو ملتی ہیں، کے الیکٹرک نے گورنرسندھ کے اس بیان پر کوئی دھیان دیے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھا اور اس دن معمول سے زیادہ لوڈشیڈنگ کرکے یہ ثابت کردیا کہ اس ملک کے تمام ادارے ہماری جوتے کی نوک پر ہیں۔
صرف بل لیٹ بھرنے کی صورت میں جمع کیاجانے والا جرمانہ ہی اربوں روپے کا ماہانہ بنتا ہے تو اندازہ لگائیں کہ کس طرح یہ ادارہ خسارے میں جاسکتا ہے، کیا اب بھی اسے فیول ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں کسی اضافے کی ضرورت ہے جب کہ یہ ادارہ جب چاہیے کسی کے بھی بل میں لاکھوں روپے اضافی رقم ڈال کر اپنا خسارہ پورا کرلیتا ہے ۔ جس کی پالیسی میں یہ شامل ہے کہ جو بل کمپیوٹر سے نکل گیا وہ درست نہیں ہوسکتا ، چاہیے پھر وہ ایک کمرے کا بل ایک کروڑ ہی کیوں نہ بھیج دیں، لازم ہے اس گھر کے اوپر کہ وہ یہ بل اداکرے۔ بصورت دیگر بجلی کی فراہمی معطل کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اور اس سارے کھیل میں کے الیکٹرک نے اپنا ایک الگ تھانہ بھی بنالیا ہے اور پولیس کو اپنے کنٹرول میں کرکے ایک الگ کے الیکٹرک پولیس کو بھی لائونچ کردیا ہے جس کا مقصد عوام کو ہمیشہ خو ف زدہ رکھنا ہے۔
عوام کو معلوم ہے کہ وہ اس سارے معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہاں انصاف کی فراہمی کا نظام کسی سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں، اگر کوئی کیس کرنا بھی چاہیے تو عدالتوں کے چکر لگا لگا تھک ہا ر کر خودکشی کرلے گا مگر فیصلہ نہیں آئے گا۔ اور عدالتوں میں کے الیکٹرک نے وکلا کی ایک فوج بھرتی کر رکھی ہے جو ان کے کالے کرتوتوں کا دفاع کرنے کے لیے ہموقت تیار رہتے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اگر اب بھی اس ادارے کو قانون کے کٹہرے میں نہ لایاگیا اور اس پر سختی نہ کی گئی تو یقین کریں کراچی جو اس وقت تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے وہ پورے ملک کو بھاری نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ اور اگر کراچی تباہ ہوگیا تو وہ پورے پاکستان کو ڈبودینے کے لیے یہ کافی ہوگا۔ اس سے پہلے کہ معاملہ مزید خراب ہو کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے کر اس کے تمام افسران کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے۔