کورونا وائرس اور تاریخی وبائیں

کورونا وائرس جدید دور کی ایک ایسی عالمی وباء، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ۲۱ صدی کے کسی بھی شخص نے کبھی یہ تصور بھی نا کیا ہوگا کہ ایک وائرس جیسے انسانی آنکھ دیکھنے میں بھی ناکام ہے وہ تمام لوگوں کو اس حد تک متاثر کردے گا کہ انسان ہی انسان سے دور بھاگنے لگے گا۔

 آج کے اس ماڈرن دور میں جب انسان چاند تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے، تو ایسے میں اس دور کے لوگ کیسے یہ بات تصور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے ہی گھروں سے باہر بغیر کسی خوف کے نکلنے میں ناکام ٹہرینگے۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی یہ وباء اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے کوئی بھی ملک، شہر یا جزیرہ ایسا نہیں ہے جہاں یہ وبا نہ موجود ہو۔ دنیا بھر کے کروڑوں افراد اس وباء کا شکار ہوچکے ہیں اور کئی لاکھ افراد اپنی قیمتی جانیں بھی گنواں چکے ہیں۔

اس وائرس نے دنیا کے تمام  شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہے، عالمی معیشیت تباہ ہوچکی ہے۔ انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کے ایسے حالات میں جب انسان مکمل طور پر ٹیکنالوجی میں جکڑا ہوا ہے، آج دنیا کا ہر سائنسدان سر پکڑے بیٹھا ہے کہ کیسے اس وباء پر قابو پایا جائے۔  تقریبا ایک سال سے زائد وقت گزرنے کے بعد اور پوری دنیاں کے سائنس دانوں کی محنت کے بعد کہیں جاکر ویکسین تیار کی گئی ہے لیکن ابھی اس ویکسین کے کوئی خاطر خواں نتائج سامنے نہیں آَئے ہیں۔ یہ وہ مہلک بیماریاں ہیں جنھوں نے تاریخ میں دنیاں کی ایک آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے:

سیاہ موت: یہ طاعون کی کئی قسموں میں سے ایک قسم کا طاعون تھا جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی وباء ثابت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبا نے دنیا کا تقشہ ہی بدل کے رکھ دیا تھا۔ انسانی تاریخ آج تک اتنے بڑے سانحہ سے دوچار نہیں ہوئی، یہ وباء چین سے شروع ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے اٹلی کے شہر سسلی جا پہنچی۔

اس وباء نے ۲۰ کروڑ کی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اس وباء نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی تھیں۔ یہ بیماری اس قدر شدید تھی کے پورے شہر میں مردے دفنانے تک کی بھی جگہ موجود نا تھی۔ یہ بیماری عام طور سے چوہوں اور جنگلی گلہریوں سے پھیلتی ہے اور پھر ایک شخص سے دوسرے شخص میں با آسانی منتقل ہوجاتی ہے۔  اسکی علامتوں میں بخار، نزلہ، پیٹ درد اور قے شامل ہیں۔

اس دور میں علاج موجود نا تھا جسکی وجہ سے لوگ اس بیماری کی وجہ سے سسک سسک کے مر جاتے تھے۔ ۱۴۰۰ تک طاعون کی وجہ سے انگلستان کی آبادی نصف رہ گئی تھی۔ ۱۷۷۲ میں ایران میں طاعون کی وباء پھوت پڑی جسکی وجہ سے اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ۲۰ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وباء سے ہورپ کی پوری آبادی ختم ہوگئی تھی جو آج تک اس تعداد تک نا پہنچ سکی۔

کوکولز تلی: یہ وباء میکسیکو میں آئی تھی۔ اس وباء نے ۵۰ لاکھ سے ڈیڑھ کڑوڑ افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس وباء کی وجہ سے میکسیکو کی پوری آبادی ختم ہوگئی تھی۔ ۳۰ برس بعد یہ وبا دوبارہ میکسیکو میں پھوٹ پڑی تھی جس سے ۲۰ سے ۵۲ لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ اس بیماری کا نا ہی کو علاج تھا اور نا ہی کوئی وجہ سامنے آئی تھی۔ بس مریضوں کو تیز بخار اور بدن کے مختلف حصوں میں خون جاری ہوتا اور وہ موت کا شکار ہوجاتے تھے۔

نیند کی وبا: اس بیماری سے کئی لاکھ افراد متاثر ہوئے اور تقریبا ۵۱ لاکھ یلاکتیں ہوئی۔ ۱۹۵۱ سے ۱۹۶۱ کے دوران یہ وباء پھوٹی تھی۔ جس سے وائرس سیدھا دماغ میں جاکر حملہ کرتا اور مریض پر غنودگی تاری ہوجاتی تھی۔ اسکی وجہ سے متاثرہ شخص ایک ہی جگہ بیٹھا رہتا اور ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔

انتونین کی وبا: اس وباء سے ۵۰ لاکھ افراد یلاک ہوئے۔ ۱۶۵ سے ۱۸۰ تک رہنے والی اس وباء نے ہورپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس بیماری کے بارے میں کچھ بھی معلوم نا ہوسکا کہ اصل میں یہ وباء ہے کیا اور کس چیز کے ذریعے یہ بیماری پھیل رہی ہے۔ مگر اسکے لیئے خصرہ اور چیچک کا نام لیا جاتا ہے کہ یہ بیماری بلکل اسی طرح کی تھی۔

چیچک: چیچک ۳ ہزار سال پرانی بیماری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی بار ۱۸ صدی میں چیچک کا پہلا مریض سامنے آیا تھا۔ ۱۸ صدی تک سوییڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر بچہ چیچک سے مر جاتا تھا۔ بڑے سے بڑے بادشاہ بھی اس بیمارے کا شکار ہوکر مر گئے تھے۔

۱۹۵۰ میں یہ ایک خوفناک وباء کی صورت میں پھیلی اور تقریبا دو دہایوں میں ۳ کڑوڑ سے زائد افراد کو اس مہلک بہماری نے متاثر کرکے رکھ دیا۔ ۱۹۶۷ تک یہ تعداد کم ہوکر ۱ سے ڈیڑھ کڑوڑ ہوگئی۔ ۱۹۷۰ تک سلانہ ۵۰ لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہورہے تھے۔ اس میں مریض کے جسم میں باریک دانے نکل آتے تھے ساتھ ہی بخار اور فلو کی علامت بھی ظاہر ہوتی تھیں۔

ہسپانوی فلو: ۱۹۱۸ سے ۱۹۲۰ کی دہائی میں پھیلنے والی وباء ہسپانوی فلو نے بھی دنیا کی آبادی کو نْصان پہنچایا تھا۔ یہ وباء پہلی جنگ عظیم کے بعد پھوٹی تھی۔ دنیاں بھر میں اس وباء سے ۵ کڑوڑ یلاکتیں ہوئیں۔ اس وقت دنیاں کی آبادی تقریبا پونے ۲ عرب تھی۔ جبکہ ہسپانوی فلو سے دنیاں کا ہر تیسرا شخص متاثر ہوا تھا۔ یہ وباء اسپین میں پھیلی تھی اور اسے متاثر زیادہ تر نوجوان نسل ہوئی تھی۔ یہ خاص قسم کا فلو ہوتا تھا جس کی بدولت انسان یلاک ہوجاتا تھا۔

جذام: دنیاں بھر میں جزام سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ جذام کو عام لفظوں میں کوڑھ کا مرض کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت علاج نا ہونے کی وجہ سے دنیاں کی بڑی آبادی اس وباء سے متاثر ہوئی۔

ایڈز: یہ وائرس ۱۹۷۶ میں سب سے پہلے مغریبی افریقا میں چیمپینزیوں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس وباء نے سب سے زیادہ افریقا کو متاثر کیا۔ ۱۹۸۱ سے لے کر ابتک ۳ کڑوڑ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ وائرس خون کے اندر شامل ہوجاتا ہے۔

اسکے علاوہ دنیاں میں دیگر بیماریاں پھیلی ہیں جس سے بے شمار لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس میں کالی کھانسی، ٹی بی کا مرض، خناق اور سارس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب بیماریاں علاج نا ہونے کی وجہ سے تیزی سے پھیلی اور خطرناک حد تک لوگ کو متاثر کرتی چلی گئی لیکن ایک وقت ایسابھی آیا جب ان بیماریوں پر قابو پالیا گیا ۔