میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ سے یہی سنا ہے کہ بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں لیکن اس آلودگی کے بڑھنے کے پیچھے کیا اہم وجہ ہے؟ کیا سمندری حیات کو صرف آلودگی سے ہی نقصان پہنچ رہا ہے ؟ یہ وہ کچھ اہم سوالات تھے جو ہمیشہ میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے تھے ، جب تک مجھے ان کا جواب نہیں مل گیا اور ان سوالات کا ایک جواب ہے وہ ہے ‘انسان’.
ہماری زمین کا 71 فیصد حصہ سمندر پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ 90 فیصد حیات سمندر میں ہی پائی جاتی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آلودگی نے ان مخلوقات کی زندگی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے مگر ہم اپنے ہاتھوں سے دیگر مخلوقات کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ انسان ہی ہے جو سمندر میں زہریلا مادہ ڈسپوز کرتا ہے، تیل پھینکتا ہے جس سے مچھلیاں سانس نہیں لے پاتیں اور ہم ہی ہیں جو سمندر میں پلاسٹک ڈالتے ہیں جس کے ذرات کھانا سمجھ کر کھانے والی مچھلیاں ساحل پر مردہ حالت میں پائی جاتی ہیں۔ ساحل پر مردہ پائے جانے والی وہیل کا جب پیٹ کاٹ کر دیکھا گیا تو اس میں پلاسٹک کی بوتل، تھیلیاں اور یہاں تک کہ چپل تک پائی گئی۔ سمندر میں ڈالے جانے والا کچرا مچھلیوں کی رہائش گاہ جسے عام لفظوں میں ‘کورل ریفز’ کہتے ہیں اسے تیزی سے تباہ کررہا ہے۔
سمندر کو انسان ‘بلیک ہول’ سمجھ کر اپنا تمام فضلہ ڈالتا رہتا ہے۔ اسے یہ احساس تک نہیں کہ وہ جس کام کو معمولی سمجھ رہا ہے یہی اس کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق مچھلیاں اپنے فضلے کے ذریعے سمندر میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کو توڑ کے اس سے آکسیجن بناتی ہیں۔ جو زمینی مخلوقات کو 80 فیصد آکسیجن مہیا کرنے کا ذریعہ ہے لیکن انسان اپنے اس عمل سے ہوا مہیا کرنے والا بڑا وسیلہ خود تباہ کر رہا ہے۔
اہم غور طلب مسئلہ مچھلی پکڑنے کے وہ جالے ہیں جنہیں ماہی گیر سمندر میں ہی چھوڑ آتے ہیں ۔ یہ جالے سمندری مخلوقات کو جِلدی نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ انہیں مفلوج کردیتے ہیں جس کے باعث وہ تیر نہیں پاتیں۔ اگر یہ جالے ساحل پر ہمارے پاؤں سے لپٹ جائیں تو ہمیں کتنی ناگواری محسوس ہوتی ہے تو سوچیں یہی جالے ان مچھلیوں کے گرد لپٹ جائیں جنہیں وہ ہٹا بھی نہ سکیں تو وہ خود کو کتنا بےبس محسوس کرتی ہونگی۔
صرف آلودگی کے ذریعے ہی نہیں انسان دیگر ذرائع سے بھی سمندری حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ ڈولفنز جنہیں انسان کا دوست کہا جاتا ہے کیا واقعی انسان ان سے اپنی دوستی نبھا رہا ہے؟ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں ڈولفنز کا شکار کیا جاتا ہے جبکہ سیکڑوں کو ان کے جھُنڈ سے جدا کر کے یرغمال بنا لیا جاتا ہے جنہیں بعد میں ان اداروں کو بیچ دیا جاتا ہے جو انہیں ٹرین کر کے ان کا کرتب عوام کو دیکھاتی ہیں۔ ہم وہ کرتب دیکھنے تو بہت شوق سے جاتے ہیں لیکن بحیثیت اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کے یہ نہیں سوچتے کہ ڈولفنز سے ان کا سمندر چھین کر اُنہیں ایک تالاب میں محکوم بنا دیا گیا ہے تو اس عمل میں ظالم کون ہوا؟
سمندری مخلوقات میں شارکز کا نام بارہا لیا جاتا ہے اور اس پر بے شمار فلمیں بھی بنائی گئیں جو عام طور پر یہی دیکھاتی ہیں کہ شارکز انسانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں یا انہیں کھا رہی ہیں وغیرہ، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہرسال جہاں شارکز کے حملے سے 10 انسان جان سے جاتے ہیں وہیں انسان اپنے مختلف مقاصد کے لیے 10 لاکھ شارکز کا شکار کرتا ہے۔ تو اب آپ خود سوچیں کہ زیادہ جانلیوا مخلوق شارک ہے یا ہم انسان؟
وہیل جس کا شمار دنیا کی تیزی سے ختم ہونے والی مخلوقات میں ہوتا ہے اس کی تباہی کا باعث بھی انسان ہے۔ پرانے دور میں انسان وہیل مچھلی کا شکار کرتا تھا کیونکہ اس کا تیل دنیا کا مہنگا ترین تیل تھا جو باعثِ شفا بھی سمجھا جاتا تھا لیکن وہیل کی نسل کو پہنچنے والے نقصان کے باعث دنیا بھر میں اس کے شکار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ آج بھی وہیل کا شکار دنیا کے کچھ حصوں میں (جس میں پاکستان بھی شامل ہے)غیر قانونی طور پر جاری ہے صرف اس وجہ سے کہ کچھ مخصوص علاقے کے لوگ وہیل کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔
بڑے بڑے عالمی پلیٹ فارمز پر ہر سال یہی عہد کیا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے سمندر کو آلودگی سے بچانا ہے یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے وغیرہ۔ مجھے بحیثیت عام انسان ان دعوؤں سے کوئی غرض نہیں۔ میں جب اپنے سمندر کو اس طرح تباہ ہوتے دیکھتی ہوں تو میرا دل بھر آتا ہے ۔ جب تک انسان خود کو مجرم نہیں ٹہرائے گا اور اپنے اقدامات چاہے وہ آلودگی ہو یا دیگر نقصان دہ اعمال، ان سے باز نہیں آئے گا، تب تک سمندری حیات کو بچانا کافی مشکل ہوگا۔