جہاد کا لفظ جہد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کوشش اور یہ کوشش ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہم سے مطلوب ہے۔ ہم سے یہ پوچھ نہیں ہو گی کہ کوشش کی تو کامیاب کیوں نہ ہوئے یا کتنے کامیاب، کتنے ناکام ہوئے؟ اسلام میں جب ہم جہاد کو دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، پرکھتے ہیں تو ہمارے سامنے اسکی چند ایک اشکال، درجہ بندیاں سامنے آتی ہیں۔
اول، جان وارنا، جنگ کرنا،جان و مال سے لڑنا،جیسے ہمارے پیارے، ہمارے رہنما صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا۔ وہ اپنے گھروں کا سامان،تمام مال اسباب وارنیب سے کبھی نہ چوکتے تھے۔ جب جب دشمن کی جانب سے حملہ ہو تو چاک و چوبند رہنا، انکے حملوں کا جواب دینا جیسا کہ ہمیں غزوات میں دیکھنے کو ملا۔ پاکستان بھی ایسے ہی وجود میں آیا علاوہ ازیں تمام جنگیں اسی درجہ بندی میں آتی ہیں۔ جس میں مسلمانوں نے اپنا تن، من، دھن وارنے سے قطعاً گریز نہ کیا. دوم،جہاد بالمال. مال کے ذریعے جنگ میں اپنا فرض ادا کرنا۔آج بھی ایسا ہے کہ مسلم کسی نہ کسی سطح پر ملک و قوم کی سلامتی کیلیے اپنا حصہ ڈالتے ہیں. سوم، جہاد بالقلم… اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو یہ صلاحیت دی ہے تو اسکو استعمال کرتے ہوئے باطل کو مات دینا. قلم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلیے قرآن مجید میں سورۃ والقلم موجود ہے۔
انکے علاوہ بھی جہاد کی اقسام ہیں،جہاد باللسان، اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پراثر بولنے کی خوبی دی ہے تو احسن طریقے سے اپنا حصہ ادا کرنا۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف فرمایا کرتے تھے جو ولولہ انگیز شعر پڑھا کرتے تھے، دشمن کے حوصلے پست کرتے تھے۔ علاوہ ازیں 1965،1973 کی جنگوں میں مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے کیلیے جو ملی نغمے پڑھے گئے وہ آج بھی سراہے جاتے ہیں۔ جہاد بالنفس،اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنا. حد سے تجاوز نہ کرنا۔ یہ ایسا جہاد ہے جو ہم زندگی میں ہر وقت کرتے ہیں. ہمارا نفس ہی ہمارا سب سے بڑ دشمن ہے۔ تازہ ترین حالات میں ہم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا ہے کہ ہم اپنی حد تک کیا کر سکتے ہیں، اور کیا کر رہے ہیں؟
فلسطین کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اب جہاد کی باقی تمام اقسام کے علاوہ جہاد بالنفس ایک واحد ایسا جہاد ہے جو تمام امت مسلمہ اپنے اپنے گھروں میں، اپنے کمروں میں رہ کر بخوبی کر سکتی ہے مگر کیا کریں کہ اپنے ہی نفس سے جان خلاصی نہیں ہوتی۔ آج ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کو اسرائیلی مصنوعات کا نہیں معلوم. ہم میں سے بہت سوں کو تمام اسرائیلی نظام کا، انکی مصنوعات کا اچھے سے علم ہے تو کیا ہم نے انکا استعمال ترک کر دیا؟ نہیں، آج بھی بہت سے ایسے قابل ذکر مسلم موجود ہیں جو کان لپیٹ کر خاموشی سے انجان بنے ان مصنوعات کو خریدے جارہے ہیںاور وجہ کیا ہے یا تو انکے بچوں کی زندگیاں اسرائیلی مصنوعات کے بغیر ادھوری ہیں یا پھر وہ خود ان مصنوعات کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہ ہمارا وہ جہاد ہے جو ہم بے خوف و خطر اپنے اپنے گھروں میں کر سکتے ہیں. خدارا جاگ جائیں اور بالخصوص ماؤں کا یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں کو مسجد اقصٰی کا، اسرائیل کا، یہودیوں کا، انکی مصنوعات کا، انکے نظام کا واضح طور پر بتائیں۔ اس کڑے وقت میں ہم بس فلسطین کا اتنا ہی ساتھ دے کر مطمئن ہیں کہ ہم نے فیس بک کی ریٹنگ گرا دی جبکہ ہم گھر بیٹھے انکی بہت سی مصنوعات کا مستقل طور پر استعمال ترک کر کے انکو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں. اور یقین کیجئے اس ہماری یہ کوششیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ لکھنا جانتے ہیں تو لکھیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ دیکھ رہا ہے، فرشتے لکھ رہے ہیں. بے خوف و خطر ہو کر دین کی سربلندی کیلیے لکھیں. دلیل کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت ہے تو تہذیب کے دائرے میں رہ کر جہاد کیجئے. اگر کبھی لگے کہ تمیز و تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے والا ہے تو بلا جھجھک سیرت کا مطالعہ کیجیے. لیکن خدارا کچھ تو کیجیے، کچھ تو کیجئے اپنی حد تک ہی سہی…. یہ سوچ ملحوظ خاطر رکھیں کہ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔یاد رکھیں ہم سے ہماری کوشش، ہماری محنت کی پوچھ ہو گی۔