تیرے وعدے پر جیے ہم

ویسے تو جتنے بھی سول حکمران قوم پر براجمان ہوتے رہے ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پریشان حال عوام کی آنکھوں میں ایسے ایسے سنہرے خواب سجائے کہ مارے خوشی وہ ہمیشہ مر جانے کے قریب پہنچتے رہے۔

موجودہ حکومت سے قبل جتنی بھی حکومتیں پاکستان میں آتی رہیں وہ بے شک لوگوں کی آنکھوں میں ایک سے ایک خواب سجاتی رہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو گزشتہ ساری حکومتوں کے جتنے بھی جھوٹے خواب، وعدے اور دعوے تھے ان سب کو یک جا کرنے اور ان کو کئی سو سے ضرب دینے کے بعد قوم کے سامنے کچھ اس یقین کے ساتھ رکھا جیسے حکومت کی پوری ٹیم جادوگروں کا ایسا گروہ ہو جس کے پاس ایسی چھڑیاں ہوں جن کی معمولی جنبش بھی ایسے کمالات دکھا جائیں گی کہ پاکستانی عوام تو عوام، دنیا اپنی آنکھوں پر اس لئے ہاتھ رکھ کر ڈھانپ لیگی کہ دکھائی دینے والی کرامات و معجزات یقین کر لینے میں مانع ہوں۔

نہ جانے کن شیطانی طاقتوں نے موجودہ حکمرانوں کے لب و لہجے میں وہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں بچا جو دام فریب سے اپنے آپ کو بچا سکا ہو۔ حد یہ ہے کہ تین سال سے ہر دکھائے جانے والے خواب، دعوں اور وعدوں کے بالکل بر خلاف ہوتے دیکھنے کے باوجود بھی فریب خورداؤں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی آس و امید کا دامن چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور اسی امید پر زندہ ہیں کہ عالم حکومت سے کوئی نہ کوئی ایسا ظہور ضرور ہو کر رہے گا جو زیر کو زبر کرکے چھوڑے گا۔

کہتے تو یہی ہیں کہ پاکستان میں عام لوگوں کی رائے سے وجود میں آنے والی یہ واحد حکومت ہے جو عوام کی تقدیر بدل دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ کیا یہ بہت ضروری ہے کہ ہر قسم کی تبدیلی کو ہمیشہ مثبت ہی تصور کیا جائے۔ دنیا میں کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیں جس کا ایک ہی رخ ہوا کرتا ہو۔ آسمان سے برسنے والی گھٹائیں ہمیشہ رحمت ہی کی تو نہیں ہوا کرتیں کہ ان کے برس کر گزرجانے کے بعد زمین سونا اگلنے لگتی ہو، اکثر کھیتیاں کی کھیتیاں بھی تو اجڑ کر رہ جاتی ہیں۔ جہاں بنجر زمین پر ہری بھری کھیتیاں لہلہانہ تبدیلی شمار کی جاتی ہو وہاں آباد کھیتوں کھلیانوں کا اجڑ جانا بھی تو ایک تبدیلی ہی ہوا کرتی ہے۔ جس طرح اٹھتی اور چڑھتی چلی آنے والی گھٹاؤں کو دیکھ کر پیاسی زمینیں خوشی کے شادیانیں اس امید و آس پر بجانے لگتی ہیں کہ برکھا اب ان کی پیاس بجھا کر ہی رہے گی وہیں اس کے بر عکس مناظر بھی تو دیکھنے میں آ جایا کرتے ہیں۔

موجودہ حکومت بھی عوام کے ساتھ چڑھتی اور امڈتی ایسی گھٹا ثابت ہوئی جس کو آسمان کی وسعتوں پر چھاتے دیکھ کر عوام نے اپنے سارے گھڑے ہی پھوڑ دیئے لیکن ان کو اس بات کی کیا خبر تھی کہ جن گھڑوں کو وہ پھوڑ رہے ہیں وہ صرف گھڑے ہی نہیں ان کی تقدیریں بھی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب سے پہلے ہر آنے والی حکومت نے وہ کچھ کبھی کر کے نہیں دکھایا جس کا دعویٰ وہ اقتدار میں آنے سے قبل کرتی دکھائی دیتی رہی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا کہ اپنے وعدوں اور دعوں کے ایک ایک لفظ کے بر خلاف بھی گئی ہو۔ پاکستان کی جمہوری سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ کوئی ایک بات جو اقتدار میں آنے سے قبل یا اقتدار مل جانے کے بعد کہی گئی ہو، اس کے مطابق ہوتی دکھائی دی ہو۔ یہ بات عوام کیلئے نہ صرف شدید صدمے کا سبب ہے بلکہ اتنی مایوس کن ہے کہ پورے پاکستان کے عوام سکتے کے عالم میں آئے ہوئے ہیں۔

 (26 مئی 2021) عوام کو اس وقت شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہوگا جب پاکستان کے اس وزیر اعظم جس کا فرمانا تھا کہ وہ سو پچاس یا ہزار دو ہزار نہیں، ایک کروڑ نوکریاں دے گا اور اچھی معاشی حکمت عملیوں کی وجہ سے ملک کو اس مقام پر لے آئے گا جہاں نوکریوں کے مواقع زیادہ اور نوکریاں کرنے والے کم پڑجائیں گے جس کے نتیجے میں بیرونی دنیا کے بے روزگار لوگ پاکستان کی جانب دوڑ دوڑ کر آنے پر مجبور ہو جائیں گے، حکومت کے پاس نوکریاں ہے ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں۔ پوری دنیا میں ملازمتیں پرائیویٹ سیکٹروں کے پاس ہوتی ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنا اپنا کاروبار کریں، چھابڑیاں لگائیں، محنت کریں اور اپنی اپنی دکانیں کھولیں۔

بات وزیر اعظم کی بھی غلط نہیں، ملازمتیں پرائیویٹ سیکٹر میں ہی ہوا کرتی ہیں لیکن جس ملک میں دکانیں، مکانات، بازار، شاپنگ پلازے اور ریڑھی بانوں تک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہو، جس ملک میں ایک ریڑھی کھڑی کرنے والا بھی بنا رشوت دیئے بازار میں کھڑا نہ رہ سکتا ہو وہاں کوئی بھی کاروبار کیونکر ترقی کر سکتا ہے۔ عوام پرائیویٹ کام تو اس وقت ہی شروع کریں گے جب انھیں قانون نافذ کرنے والے سکون کا سانس لینے دے رہے ہونگے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم صاحب کم از کم اتنا تو کر جائیں کہ کار و بار کرنے والے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے لگیں۔ یقین مانے اب تو یہ عالم ہو گیا کہ ہر عام و خاص موجودہ حکمرانوں کی لاف گزاف سن کر یہی کہتا نظر آتا ہے کہ

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔