گزشتہ دنوں بھائی کے ساتھ ٹریفک حادثہ پیش آنے کی وجہ سے اسپتال کے چکر لگتے رہے۔ وہاں کئی دن رہنا بھی ہوا اور بہت قریب سے لوگوں کو دیکھنا بھی نصیب ہوا۔ آرتھو پیڈک وارڈ میں آپ کو ننانوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ملیں گے جو کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو کر اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھے ہوں گے۔ عمر بھر کی معذوری کو گلے لگا بیٹھے ہوں گے یا اپنے کسی عضو سے محروم ہو گئے ہوں گے اور نہ جانے کتنے ہی لوگوں کے پیارے ان ناگہانی حادثات کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ کر ان سے جدا ہو جاتے ہیں۔
اگر صحت جیسی نعمت کی آپ کو قدر نہیں ہے تو کسی اسپتال کے ایمرجنسی میں جا کر چند گھنٹے گزار آئیں۔ آپ کو ہر اس نعمت کی دل سے قدر ہو جائے گی جسے آپ فار گرانٹڈ لیتے ہیں۔ وہاں کی مسجد میں اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے لوگوں کو اللہ کے سامنے سسکتے، تڑپتے اور بلکتے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دن رات اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے تھے اور آپ ﷺ نے امت کو بھی ہمیشہ اس کی تلقین کی ہے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا ”یا رسول اللہﷺ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ سے عافیت مانگو۔“ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور میں نے کہا: ”یا رسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عافیت کہتے کسے ہیں؟ جس کے مانگنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ عافیت، ایک ایسا جامع لفظ ہے جس میں ہر قسم کی ظاہری، باطنی، دنیوی و اخروی آفات و بلیات اور مکروہات و مصائب سے پناہ، نیز دین و دنیا کی تمام بھلائیوں کی طلب و استدعا موجود ہے۔ صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔
عافیت کے معنی یہ ہیں کہ دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت۔ لہٰذا، عافیت‘ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے۔ جس نے عافیت مانگی، اس نے گویا دنیا و آخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے۔‘‘
حضرت ڈاکٹر عبدالحئ عارفی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے۔ ’’عافیت، بہت بڑی چیز ہے۔ بہت اونچی نعمت ہے اور عافیت کے مقابلے میں دنیا کی ساری دولتیں ہیچ ہیں۔ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ: عافیت دل و دماغ کے سکون کو کہتے ہیں اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتے ہیں۔ عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا نہ روپے پیسے سے عافیت خریدی جا سکتی ہے نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کر سکتا ہے۔ عافیت کا خزانہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس کی ذات کے سوا کوئی عافیت نہیں دے سکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے سوال کیا کہ یہ قبولیت کے اوقات میں سے ایک اہم وقت ہے۔ ہمیں موقع ملے تو اللہ تعالیٰ سے اس قبولیت کے وقت میں کیا دعا مانگیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔
ترمذی شریف میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ ’’کہ تمہیں کلمۂ اخلاص (کلمۂ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ لہٰذا، تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔‘‘ ابو داؤد میں یہ روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعہ دعا مانگتے تھے۔ اے اللہ! میں آپ سے دنیا و آخرت کی عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں آپ سے اپنے دین، دُنیا، اپنے اہل وعیال اور اپنے مال کے معاملے میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری پردوں کی چیزوں کو پردے میں رکھ اور گھبراہٹ کی باتوں سے مجھے امن میں رکھ۔ اے اللہ! میرے آگے اور میرے پیچھے، دائیں بائیں اور اوپر سے میری حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ اپنے نیچے سے ناگہاں ہلاک کر دیا جاؤں۔
یہ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کر لیں۔ خود بھی اپنے معمول میں یہ دعا شامل کر لیں اور گھر میں بھی چھوٹے بڑے سب افراد اس کی پابندی کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ! زندگی میں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگہبانی میں رہیں گے۔