یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبہ فکر کے بورڈ “وفاق المدارس العربیہ” کے تحت چلائے جا رہے ہیں حالانکہ بریلوی مکتبہ فکر کا مدرسہ بورڈ تنظیم المدارس، شیعہ مکتبہ فکر کا بورڈ وفاق المدارس الشیعہ، اہلِ حدیث مسلک کا بورڈ وفاق المدارس السلفیہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعت جماعتِ اسلامی کے مدارس ‘رابطۃ المدارس السلامیہ’ کے تحت بھی چل رہے ہیں۔
ہر مسلک کا مدرسہ بورڈ ایک وفاقی تعلیمی بورڈ کی طرح کام کرتا ہے جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں اپنے ہی مکتبہ فکر کے مدارس کی رجسٹریشن، نصاب سازی اور تعلیمی نگرانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے امتحانات کا انعقاد اور اسناد جاری کرنا شامل ہے۔
ہر مکتبہ فکر کے مدرسہ بورڈ کے تحت نصاب کمیٹی اپنے ہی مکتبہ فکر کے مدارس کے لیے یکساں نصاب تیار کرتی ہے اور ان کی جاری کردہ اسناد کو حکومت عصری تعلیم کے مختلف اسناد کے متوازی تسلیم کرتی ہے۔
پاکستان میں مدارس کی سرکاری سطح پر اعداد و شمار تو دستیاب نہیں البتہ مختلف مدرسہ تنظیموں اور محققین سے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ تقریباً 21565 مدارس میں ساڑھے 28 لاکھ طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔البتہ وفاق المدارس العربیہ سے 18600 مدارس کا الحاق ہے، جن میں بیس لاکھ کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں مدارس کی تعداد میں دس سے بارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب صرف غریب علاقوں ہی سے طلبہ نہیں آتے بلکہ متوسط گھرانوں کے بہت سے طلبہ کا رجحان بھی مذہبی تعلیم کی طرف ہو رہاہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں طلبہ کی تعداد خصوصاً بڑھی ہے۔
پہلے پاکستان میں ہر مکتبہ فکر کا ایک وفاق منظور شدہ تھا لیکن اب وفاقی حکومت کی جانب سے دینی مدارس کی قوت کو کمزور کرنے کے لئے 5 نئے وفاق قائم کرنے کا باضابطہ نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے اور جامعۃ الرشید کو انسٹیٹیوٹ کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دینی مدارس کے جو نئے بورڈز کا مسئلہ بنا ہے، اس نئے بورڈ میں شامل ہونے والے احباب جمہور علما کی رائے کے مخالف ہیں، اگرچہ وہ اپنی رائے اور علیحدگی کی وجوہات میں دل سے مخلص ہی ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس سے رجوع کرنا چاہیے، ایک عام فہم بات ہے کہ ہر دینی ادارے کے مہتمم حضرات کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے پیارے حکمرانوں نے مساجد اور نئے مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی لگا رکھی ہے انہوں نے اتنی محبت اور پیار سے نئے بورڈ کیوں بنا دئیے، اس کے پیچھے ان کے کیا عزائم ہیں ، کیا صاف نظر نہیں آرہا کہ دینی مدارس کی قوت کو منتشر کرنے کے لئے یہ خوبصورت جال پھینکا گیا ہے..؟ یقیناً ان بورڈوں کا بھی وہی حال ہوگا جو مشرف کے مدرسے بورڈ کا ہوا تھا ۔
اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہو جائے گی کہ بعض لوگ صرف انتہا درجے کے مخلص تو ہوتے ہیں مگر مستقبل پر ان کی نظر نہیں ہوتی، ایسے سادہ لوگوں کے اخلاص پر مجھے ذاتی طور پر رشک بھی آتا ہے لیکن پھر بھی ان کے ہاتھ میں کوئی اہم ذمہ داری دینے کا حامی نہیں ہوں کیونکہ وہ مخلص تو ہوتے ہیں مگر وہ لوگ مستقبل کے چیلنجز سے آگاہ نہیں ہوتے، ان کے پاس اسلام دشمنوں کی سازشوں کا جواب دینے کے لئے موثر حکمت عملی اور مستقبل کا کوئی پلان نہیں ہوتا۔
در اصل قیادت کا حق اسی کے پاس ہے جو اخلاص اور کردار کے ساتھ عالی دماغ بھی رکھتا ہو، جو مستقبل کے چیلنجز سے بھی آگاہ ہو اور جس کے پاس آگے بڑھنے کی قابل عمل حکمت عملی بھی موجود ہو ، وفاق المدارس کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب کی صورت میں ایک ایسی شخصیت ملی کہ جو کسی بات اور واقعے کو صرف ایک جہت سے نہیں دیکھتے، وہ ہر موضوع کو مختلف نظر اور زاویوں سے دیکھتے ہیں ، ملکی و عالمی حالات پر بھی ان کی الحمدللہ گہری نظر ہے، گذشتہ 20 سالوں سے دینی مدارس کے خلاف بے شمار سازشیں ہوئی ہیں لیکن وہ تمام سازشیں ناکام رہی، ان سازشوں کو ناکام بنانے میں جہاں دیگر اکابرین کا کردار ہے ان سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے میں مولانا حنیف جالندھری صاحب کا بھی بڑا عمل و کردار ہے ۔
بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ نئے وفاق اجارہ داری ختم کرنے کے لئے منظور ہوئے ہیں حیرت ہے ان کی سوچ پر اور ان کی وفاق کے نظام سے ناواقفیت پر..! مجھے حیرانگی زیادہ اس بات پر ہوں رہی ہے کہ وفاق المدارس تو ایک ایسا بورڈ تھا جس کے ڈسپلن کی ہم سب تعریفیں کرتے تھے، اس کے طریقہ کار کی اسکول و کالج کے بورڈز کو مثالیں دیتے تھے پھر یہ اچانک کیا ہوا کہ وفاق المدارس پورا بورڈ ہی کچھ لوگوں کو غلط نظر آنے لگا، وفاق المدارس تو علماء و طلباء کے لئے سائبان کی حیثیت رکھتا ہے، اچانک اس میں چھید کیوں نظر آنے لگے، انسان ہونے کے ناطے کمی کوتاہی ہو سکتی ہے کسی ایک فرد سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر پورے کے پورے تعلیمی نظام اور وفاق المدارس کی ایسی شاندار کارکرگی کو یکدم دھول میں اڑا دینا سمجھ سے باہر ہے، مولانا عبدالرحیم صاحب اور مفتی نعیم رح کے صاحبزادوں کو بھی میں مخلص تصور کرتا ہوں ، لیکن یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شاید وہ مستقبل کے چیلنجز اور عالمی سازشوں سے ٹھیک طریقے سے آگاہ نہیں ہیں ، انہیں مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا حنیف جالندھری صاحب جیسے صاحب نظر اور تجربے کار لوگوں کے دامن کو چھوڑ کر وفاق المدارس کو کمزور نہیں کرنا چاہئیے، وفاق المدارس کے ساتھ 21 ہزار 565 دینی مدارس کا الحاق ہے، جس میں سے واضح اور اکثریت وفاق المدارس کے ساتھ ہیں ، جب اپنوں کی اکثریت سامنے آجائے تو سر جھکا دینا چاہیے کہ یہ اکثریتی لوگ بھی دین کے محافظ ہیں، اگر نئے بورڈ میں شامل ہونے والے اپنے آپ کو درست بھی سمجھتے ہیں تب بھی اپنوں کی واضح اکثریتی رائے کا احترام کریں بلاوجہ امت سے کٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قائد جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن صاحب اور قائد اہلسنت علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب 22 مئی 2021 کو وفاق المدارس کے اجلاس میں شریک ہوئے جس میں ظاہر ہے کہ سیاسی قائدین نے بھی وفاق المدارس پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، باقی مولانا حنیف جالندھری صاحب اور دیگر اکابرین وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ، ہم سب کو انہیں ہر صورت مضبوط کرنا چاہئیے۔ بالخصوص مولانا حنیف جالندھری صاحب انتہائی باصلاحیت ، مدبر اور محقق قائد ہیں دینی مدارس سے وابستہ افراد ان پر فخر کرتے ہیں۔