اپنا آزاد ملک و وطن ہر انسان کی پہچان اور بنیادی حق ہے۔ بیشک انسان ساری دنیا گھوم پھر لے مگر جو سکون اور تحفظ کا احساس اپنے ملک میں ہوتا ہے، اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ وطن سے محبت تو ایک ایسا احساس وجذبہ ہے جو ہر قوم و ملت اور ہر مذہب کے پیروکار کے اندر کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لیے تو بحیثیت مسلمان، وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی، جب اپنے رب کے حکم پر مکہ مکرمہ چھوڑ کر جانے لگے” مکہ کی طرف رخ کرکے مخاطب ہوئے۔ اے مکہ تو مجھے محبوب ہے۔ میرا دل تو نہیں چاہتا کہ میں تجھے چھوڑ کر جاؤں لیکن کیا کروں؟ تیرے رہنے والوں نے مجھے یہ شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے (ترمذی۔مسند )
ہم پاکستانیوں کو جو بہار گلستان رب کریم نے عنایت فرمایا ہے۔ اس کا نام ہی پاکستان ہے۔ جس کا مطلب ہے پاک سر زمین۔ ہر طرح کی غلاظت سے محفوظ وطن۔ ہم بطور نئی نسل اپنے وطن کی قدر و قیمت اس وقت تک نہیں نہیں جان سکتے جب تک اس کے حصول کی خاطر دی گئی قربانیوں کو محسوس نہ کر لیں۔جب تک اس کے اساسی نظریہ کو نہ سمجھ لیں۔ عالم اسلام کے لئے اس کی مرکزی حیثیت کو نہ جان لیں۔ دشمنان اسلام و پاکستان کے اس کے خلاف مستعمل ہتھکنڈوں وپراپگنڈوں کو پہچان نہ لیں۔
تو آیئے ! ان سب چیزوں کو سمجھنے کے لئے مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں اور اپنے لیے وہ اصول مرتب کرتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم پاکستانی اپنی ملکی سلامتی اور قومی خود مختاری کا تحفظ کر سکیں۔ قومی سلامتی میں دو پہلو نمایاں ہیں۔ نظریاتی سلامتی، سرحدی سلامتی۔
پہلے ہم نظریاتی سلامتی کا مختصر سا احاطہ کرتے ہیں کہ جب برصغیر میں ہندو مسلم اکٹھے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو شدت سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کے لئے الگ سے ایک ایسا خطہ ہو جہاں یہ آزادانہ اپنے نظریاتی اساس پر زندگی بسر کر سکیں۔ یہی نظریہ حصول پاکستان کا محرک بنا ، جسے نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔
جہاں حاکمیتِ الٰہی کو تسلیم کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی جداگانہ ثقافت اور قومی ورثے کو ترقی دے سکیں۔اسی لیے تو قیام پاکستان سے قبل ہی بچے بچے کی زبان پر یہ نعرہ گونجنے لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
پاکستان اسلام جیسی مضبوط بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اس لئے اس کے قوانین میں حاکمیت الٰہی اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ”حکم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں، اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے“۔
جب انسان حاکمیت الٰہی کا اقرار کر لیتا ہے تو وہ ضابطہ حیات کے لئے احکامات الہیٰ کو ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ صاف بات ہے جب حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے تو قانون بھی اسی کا چلے گا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”اس ملک کو چلانے کے لئے کسی نئے دستور کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا دستور اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے مرتب فرما دیا تھا اور وہ قرآن ہے“۔
ہمارے لیے ہمارے رب کا حکم ہے فرمایا ”پیروی کرو اس قانون کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو“۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے آئین قرآن کریم کی صورت میں بھیج دیا گیا ہے تو ہماری کیسی جرات؟ کہ اس آئین کے مقابلے میں دوسروں کی پالیسیوں کو ترجیح دیں یا پھر اپنی عقلوں کے فتور میں آئیں۔
ہماری نظریاتی سرحدوں میں اہم ترین سرحد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اتباع وتحفظ بھی ہے۔ جسے پار کرنے کی دشمنان اسلام وقتاً فوقتاً کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ توہین رسالت کی صورت میں ہو یا قادیانیت کے فروغ کی صورت میں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس لیے بھیجا کہ اللّٰہ کے اذن کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے“۔اور فرمایا ”جس نے رسول نے اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔
پاکستان کے آئین کا دوسرا بڑا ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طائفہ انسانی کے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی حیثیتیں حاصل ہیں۔
ہمارے لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاست دین سے الگ فعل ہے اسی لیے تو بڑے سیاسی عہدوں پر، دینی فہم و فراست سے عاری لوگ،فائز کر دیے جاتے ہیں۔ نہ علم، نہ عمل،نتیجہ ملکی حالات حاضرہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جبکہ اسلام تو دین و سیاست کی یکجائی کا قائل ہے۔ علامہ اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں ہمیں یہ بات سمجھائی ہے۔ فرمایا!
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر افسوس۔۔۔ ہمارے کئی لوگ ابھی تک ہندوانہ رسوم کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی غلامی سے تو جان چھڑوا لی لیکن ابھی بھی ان کی تقلید میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا جس کا مفہوم ہےکہ جو کوئی کسی کی تقلید کرے گا وہ قیامت والے دن انہی میں سے اٹھایا جائے گا جبکہ اسلام ہمیں تہذیب وتمدن کے لحاظ سے مضبوط معاشرت کا تصور دیتا ہے۔
اللّہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ہمیں اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے ، ملنے جلنے ، کھانے پینے ، معاملات ، عبادات، معاشرت ، معیشت، غرض کہ دنیاوی زندگی کے ہر اسلوب سے روشناس کرایا ہے۔ ہم دوسروں کی بوکھلاہٹیں مستعار کیوں لیں۔ علامہ اقبال نے اس کی عکاسی اپنے شعر میں اس طرح کی ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
حضرت علی، حضرت خالد بن ولید، محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، صلاح الدین ایوبی ، اور ٹیپو سلطان کے جانشین افواج پاکستان کے سپوت ہیں۔ پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی چند بہترین افواج میں کیا جاتا ہے اس فوج نے کئی عظیم کارنامے نمایاں سر انجام دیے۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں خود مختاری کا فقدان ہے۔ لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاست کا امیر اپنے آپ کو عوام کا جواب دہ نہیں سمجھتا۔ ایوانِ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان لوگ عوام کا پیسہ بے خوف و خطر اجاڑتے ہیں۔ حکمران اور عوام دو الگ طبقے بن چکے ہیں۔ ایک طبقے کے لیے بغیر کسی مشقت یہ دنیا نمونہ جنت ہے اور دوسرے کو سارے دن کی محنت مزدوری کے باوجود پیٹ بھر کر روٹی کھانے کو نصیب نہیں۔
آئی۔ ایم۔ ایف کا عفریت عوام کے سر پر منڈلاتا ہے جو اس کے منہ میں جانے والے نوالوں کا بھی حساب کتاب کرتا ہے۔صیہونی طاقتیں ہمارے ملک میں گھس کر ہماری قومی خود مختاری پر ضربیں لگاتیں ہیں لیکن ہمارے حکمران انہیں روکنے کی بجائے خود خاموش تماشائی بنے رہے۔ چند ڈالروں کے عوض بے ضمیر لوگوں نے ہیروں جیسے لوگ دشمنوں کے حوالے کر دیے۔
ہمیں اپنی قوم کو نظریہ پاکستان سمجھانا ہو گا۔ لا الہ الا اللہ کا مفہوم باور کروانا ہو گا۔ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی نافذ کرنی ہو گی۔ پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنی ہو گی۔ معیشت میں خلفائے راشدین کے طریقے اپنانا ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر قوم میں قرآن وحدیث کا علم عام کرنا ہوگا اور عمل پر مائل کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہی ہم ملکی سلامتی اور قومی خود مختاری کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ پھر ان شاءاللہ تعالیٰ ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہو گا۔