چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، عوام کا جمِ غفیر مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ چلو زبانی کلامی ہی سہی یکجہتی کا اظہار تو کرر ہی رہے ہیں۔ لیکن آفرین ہے پاکستانی عوام پر جو صرف سوشل میڈیا کا ہی سہارا لے کر وظائف اور دعاؤں سے کام چلا رہے ہیں۔
ہاں کہیں کہیں احتجاج بھی ضرور ہوا ہے۔ اسمبلی میں مذمتی قراردادیں اور بیانات آنے شروع ہوگئے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن دونوں بینچوں سے نہایت دلجمعی سے مُکے لہرا لہرا کر اسرائیل کو دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ فلسطینیوں کو پورا یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ فکر نہ کریں ہم اپنے مظلوم بھائی بہنوں کے ساتھ ہیں۔ اسمبلیوں میں ہمارے نمائندے آپ کی حمایت کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں اور ہماری عوام آپ کے لئے عطیات اکٹھے کر رہی ہے۔ جب اسرائیل کی طرف سے گولا باری کا سلسلہ توڑا تھمے گا تو ہماری طرف سے ہر طرح کی مدد اب تک پہنچنا شروع ہو جائے گی۔
رہے دنیا کے مسلم ممالک تو وہ بھی بہت آزُردہ ہیں۔ اپنا قیمتی وقت نکال کر غریب فلسطینیوں کے لیے او آئی سی کا فوری اجلاس طلب کیا گیا اور پھر ٹھنڈے ماحول میں بڑے پیمانے پر مذمتی قراردادیں پاس کی گئی اور یہودیوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ جن سے ان کے دل دہل گئے۔ بس مسلمانوں کا کام ختم اب باقی کام اللّٰہ پر چھوڑ دیا گیا۔ لیکن فکر نہیں کریں ہمارے دل آپ کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ کشمیریوں کی مدد بھی سالوں سے اسی طریقے پر کی جا رہی ہے۔ رہا مسلمانوں کا جذبہُ جہاد تو اس کے لیے تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد دلوں کو گرما دینے والے ترانے میڈیا پر چلا دیے جاتے ہیں۔ آج کے دور میں یہی کچھ ہو سکتا ہے لیکن فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کو ہمت و حوصلے سے کفار کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہماری دعائیں اور اللہ تعالی کی مدد آپ کے شاملِ حال ہوگی۔ آمین۔
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا؟
منزل کبھی آئے گی نظر کیا؟