فلسطین پر ظلم اور پاکستان کا کردار

پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی قوت رکھنے والا واحد اسلامی ملک ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے جہاں دوست ممالک ہیں وہیں یہودی و عیسائی ممالک کی نظریں اسے تباہ و برباد کرنے پر مرکوز ہیں۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک پوری دنیا کے ممالک پر بالعموم اسلامی ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کے راستے میں پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔

 ہٹلر کے یہودیوں کو نشان عبرت بنانے کے بعد یہودیوں نے بے یار و مددگار ہونے کے ناطے امریکہ کے کہنے پر فلسطین کے خطے میں آبادکاری شروع کی۔ جس کی بناء پر پوری دنیا کے کونے کونے سے یہودی جمع ہونے شروع ہوئے اور بعدازاں امریکہ نے اپنی ناجائز اولاد کے طور پر اسرائیل کے نام سے ایک ملک متعارف کروایا۔ یہ ملک اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلمانوں بالخصوص فلسطین کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں کر رہا ہے۔ اسکا مقصد بیت المقدس اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنا ہے اور اسے یورپی یونین سمیت امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ماہ رمضان میں بیت المقدس میں نماز تراویح ادا کرنے والے مسلمانوں پر ظلم کی داستان رقم کی گئی۔ جس کے بعد مسلسل کئی روز تک اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کئے گئے۔

انٹرنیشنل میڈیا چینلز کی کوریج کو روکنے کے لئے بلند و بالا ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا جہاں الجزیرہ سمیت متعدد انٹرنیشل میڈیا چینلز کے دفاتر موجود تھے۔اسرائیل کا ان ٹاورز کو تباہ کرنے کا مقصد اسرائیلی مظالم کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنا تھا۔ حماس نے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی ٹھانی اور ہزاروں راکٹ فائر کئے گئے جن کو اسرائیلی حفاظتی آئرن ڈومز نے فضا میں تباہ کر دیا اور چند راکٹ اسرائیل پر گرے جس کو بنیاد بنا کر اسرائیل پوری دنیا کے سامنے مظلومیت کا واویلا کرتا نظر آیا۔

ہیومن رائٹس کے عالمی ٹھیکیدار امریکہ نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا اور فلسطینیوں کے قتل عام کو ذاتی دفاع قرار دیا۔ اسی اثناء میں سعودی عرب کی جانب سے او آئی سی کے رکن اسلامی ممالک کا اجلاس بلایا گیا جس میں صرف فالتو لفاظی اور مذمت کے علاوہ فلسطینی بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ عرب ممالک کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسے تسلیم کر چکا ہے اور سعودی عرب بھی امریکی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے خوب نمک حلالی کرتا رہا۔

 سوال یہ ہے کہ مسلم امت اگر ایک جسم کی مانند ہے اور ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم محسوس کرتا ہے تو کیا فلسطینی عوام اس جسم کا حصہ نہیں؟ ہمارے حکمرانوں نے جب سے یورپ کو اپنا قبلہ منتخب کر لیا ہے تب سے وہ ذلت کا شکار ہیں۔ محض نوے لاکھ کی آبادی والا ملک اسرائیل کیسے ہر روز بم گرا کر ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو شہید کرتا رہا۔ سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے 60 ہزار بے گھر اور ہزاروں زخمی ہیں۔ کون اس ظلم کا اسرائیل کا بدلہ لے گا؟ مسلم ممالک کو اس کے رد عمل میں کھوکھلی مذمت کرنے کی بجائے مردانہ وار آواز اٹھاتے ہوئے جہاد کا اعلان کرنا چاہئیے تھا۔

پاکستان آرمی دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ اگر ہمارے دستے UN امن مشن پر روانہ ہو سکتے ہیں تو قبلہ اول بیت المقدس جہاں ہمارے آقا علیہ السلام نے ایک لاھ چوبیس ہزار سے زائد انبیاء کی امامت کروائی وہاں اسکی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے کیوں نہیں روانہ ہو سکے۔ اسلام امن کا درس ضرور دیتا ہے مگر جب حالات موزوں نہ ہوں تو ایک مسلم لڑکی کے خط پر محمد بن قاسم کی طرح سندھ پر حملہ کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔

مسلمان اپنے دین کے معاملہ میں بہت غیرت مند ہے۔ چاہے کوئی بے نمازی ہی کیوں نہ ہو مگر جب میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس اور اسلام کی سربلندی کی بات آئے تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے عاشاقانِ مصطفی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں حکومت پاکستان کے مظالم کو برداشت کیا۔پچیس افراد کو شہید کر دیا گیا مگر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملہ میں حکومت وقت نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے۔ کیا یہ حکومت فقط مدینہ کو دورہ کر کہ خود کو عاشق رسول کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے ہے۔ دنیا میں ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں ہوں اور فلسطینی مسلمانوں پر بموں کی بارش کی جائے اور حکمرانوں کا خون نہ کھولے تو ان کو اپنے ایمان کا ٹیسٹ کروانے کی اشد ضرورت ہے۔

چاہئیے تو یہ تھا کہ پاکستان اسرائیل کو شاہین تھری کی دھمکی دیتا۔ جس کی رینج میں اسرائیل موجود ہے اور یہ ایٹمی وار ہیڈ ساتھ لے جانے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ مگر غیرت ایمانی رکھنے والے حماس اور القاسم بریگیڈ کی عظمت کو سلام کہ انہوں نے اس ایٹمی ملک کی فوج سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ محدود وسائل کے باوجود اسرائیل کے دل تل ابیب اور دیگر شہروں پر راکٹ برسائے اور یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان جہاد کے نام پر جان دینے سے نہیں ڈرتا۔

51 مسلم ممالک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے کہ ہم قاتل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یا اپنے فلیسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر تے ہوئے عملی اقدامات کے ذریعے فلسطین کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑوائیں گے۔ تمام اسلامی ملک قدرتی وسائل کے دولت سے مالامال ہیں اگر اپنی مصنوعات بشمول تیل دنیا کو دینا بند کر دیں اور یورپ کی مصنوعات کا کچھ عرصہ بائیکاٹ کر دیں تو اسرائیل سمیت کئی یورپی ممالک کی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس ہمارے حکمران آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے غلام ہیں فقط لفظی مذمت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ اسرائیل نے اب اتنی تباہی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ مگر ان سینکڑوں شہادتوں کی دیت کون دے گا؟

کونسا اسلامی ملک اس ناقابل تلافی نقصان کی وجہ سے اسرائیل کا محاسبہ کرے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہئیےکہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کرے کیوں کہ یہود و نصری قرآن کریم کی روح سے ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ لہذا دوستی کی امید رکھنے کی بجائے یہ وقت امت کو جوڑنے اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرنے کا ہے۔ جس دن پاکستان ایٹمی طاقت بنا اس دن فلسطینی بچے نے اسرائیلی فوجی کو کہا تھا کہ اب ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ایٹم بم کو اسلامی بم سمجھا جاتا تھا کہ یہ پورے عالم اسلام میں جہاں کہیں ظلم ہوگا اسکے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کے ناطے مسلم دنیا کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف موثر آواز بننا ہوگا۔ کیوں کہ مشہور محاورہ ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔