اسرائیل مسلمانوں کا ازلی دشمن

(تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو)سوچنے اور غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ ارد گرد ستاون اسلامی ممالک اور ان کے درمیان ایک نقطے کے برابر اسرائیل جو تعداد میں بھی  مسلم آ بادی سے انتہائی کم ہیں۔ ان کو اتنی جرات اور ہمت کیسے ہوئی کہ انھوں نے نہ صرف فلسطین کی زمین پر قبضہ کرلیا بلکہ وہاں کے مسلمانوں کواپنا غلام سمجھ کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ  توڑ نا شروع کردیے ۔

یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کی یہودی مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں قرآن مجید بھی انکی دشمنی کے بارے میں گواہی دیتا یے کی تم نصاری (عیسائیوں) کومسلمانوں سے محبت میں قریب پاؤگے جبکہ یہود مسلمانوں سے دشمنی میں شدیدتر ہیں اور اسکی وجہ قرآن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ وہ منتظر تھے کہ جس آ خری نبی کی آ مد کی پیشن گوئی انکی کتابوں میں ہے وہ نبی بھی بالآخرنسل بنی اسرائیل ہی سے ہوگا یہ ایک طرح سے انکا تکبرانہ دعوی تھا کیونکہ تقریبا تمام انبیاء  بنی اسرائیل ہی میں  مبعوث کیے گئے اس لحاظ سے یہ اپنے آ پکو بہت متمدن تہذیب یافتہ اور کلچرڈقوم سمجھتے تھے اور بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرتے تھے۔

مگر اللہ کے فیصلے بندوں کی مرضی اور پسند کے محتاج نہیں ہوا کرتے ۔اللہ نے انہیں پہلی امت مسلمہ بنایا انکو اپنی چہیتی قوم قرار دیا انکو ایک منصب ایک عہدہ ایک گراں قدر ذمے داری عطا کی کہ تمہیں ہر چیز سے آ زاد ہوکر بس ایک کام کرنا ہے کہ اللہ کا پیغام اللہ کادین بندوں تک پہنچانا ہے اوراس بنا پر دنیا کی تمام قوموں پرانکو فضیلت عطا فرمائی مگر قرا ن کہتا ہے ان سب کے باوجود انہوں نے جو کچھ کیا وہ آ پ اپنے ہی اوپرظلم کیا اور اللہ  نے  بار بار انہیں  معاف کیا مگر یہ اپنی شرانگیزیوں سے باز نہ آئے۔انکی بداعمالیوں اور شر انگیزیوں کی بنا پر بلاخر وہ منصب اور فضیلت واعزازبنی اسرائیل سے چھین لیا گیا اوربنی اسماعیل کو وہ اعزاز عہدہ ذمے داری اور منصب تفویض کرکے  امت” وسط”کا خطاب دے کر بنی اسرائیل کے غرور و تکبر کے بت کو پاش پاش کردیا گیا اور تحویل قبلہ اسکا نقطء آغاز ٹہرا۔

 بس یہیں سے یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کا آ غاز ہوتا ہے۔صدیاں گزر جانے کے باوجود انکی دشمنی میں کوئی کمی کیا آ تی بلکہ اسمیں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا ۔اب وہ ایک ہی مقصد لیکر دنیا میں آ تے ہیں کی کسی طرح انکو وہ کھویا ہوا مقام ومنصب دوبارہ مل سکے اور  دنیا پر انکی حکمرانی کا خواب پورا ہوسکے اور انکی ساری بھاگ دوڑ صرف اور صرف اسی ایک مقصد کیلئے ہے اور ایسا اس لیے ہوا کہ مسلمان اپنا مقصد حیات فریضہء اقامت دین بھول بیٹھے اورترک کر بیٹھے اور اپنے دین کو صرف دعوت وتبلیغ تک محدود کردیا اوراللہ کے قوانین کے مطابق مضبوط اسلامی ریاستیں بنانے کی طرف توجہ ہی نہ کی جسکا خمیازہ آ ج پوری امت مسلمہ بھگت رہی ہے۔

پوری دنیا کی معیشت پر انکا قبضہ ہے میڈیا پر انکا قبضہ ہے۔ مسلم ریاستوں کی اندرونی اور بیرونی پالیسی انکے عمل دخل کے بغیر نہیں بن سکتیں حتی کی تہذیب وتمدن رسوم ورواج رہن سہن اور لباس تک کی غلامی مسلمانوں نے اختیار کر رکھی ہے گویا مسلمانوں کے دوخدا ہوگئے ایک وہ جس کے سامنے سجدے اور عبادت کے ظاہری افعال بجا لاتے ہیں اور ایک خدا وہ جسکے احکامات وقوانین کی پابندی کرتے ہیں نعوذ باللہ اوریہ شرک فی الحاکمیت ہی شرک کی بد ترین قسم ہے جسمیں بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ غرق ہے اور اسکو شرک سمجھتی ہی نہیں۔

بیشک آ ج یہود ونصاری بظاہر غالب دکھائی دیتے ہیں انکی چمک دمک اور روشنی نطروں کو خیر کردینے والی یے مگر شاید یہ نہیں  جانتے کہ ایک سچی ایمان کی روشنی اور رمق انکی ساری جھوٹی چمک دمک کو نگل جانے والی ہے جسکے بارے میں خود اللہ گواہی دیتا یے کہ تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو  اور اللہ کے نور کو یہ اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرکے ہی چھوڑیگا چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو اور مقصد بعثت محمد صل اللہ علیہ وسلم  تو پورا ہو ہی نہیں سکتا اسوقت تک کہ جب تک پوری دنیاپر اسلام نظام کی حیثیت سے غالب نہ ہوجائے “وہ اللہ ہی ہے جس نے بھیجا یے اپنے رسول کوہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو غالب کردے تمام ادیان باطلہ پر چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوارکیوں نہ گزرے۔