قائد اعظم کی مادر علمی جامعہ سندھ مدرستہ الاسلام میں شعبہ کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟یہ جملہ اُس تیر کی مانند ہے جِس نے اِس معاشرے کو بُری طرح چھلنی کررکھا ہے۔
آگے بڑھنے کی چاہ رکھنے والا، کوشش کرنے والا اور اپنی قابلیت پے اعتماد کرنے والا ہر دوسرا فرد اس ذہنی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ آپ بیتی کا ذکر کیا جائے تو بہت افراد مجھ سمیت میری نظر میں ایسے آئے جو اِس ایک جملے کا شکار ہو کر رہ گئے۔
جب بھی جہاں بھی کچھ بھی کرنے کا موقع ملتا تو قدم یہ سوچ کر وہیں جم جاتے کہ یار اگر میں نے یہ کیا یوں کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ اِس جملے سے نجات پانے کے لیے کافی مرتبہ یہ کوشش بھی کی کہ ماہرِ نفسیات کو سُنا جائے مگر وہ کوشش بیکار گئی اس لیے کہ اُن کی بھی عجیب وغریب کہانیاں تھیں۔
خیر!اس جملے نے آدھی نسل کے پاؤں جکڑ کر رکھ چھوڑے ہیں جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے اور گہری کھائی کی زینت بنتے جارہے ہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ جس روز ہم اس ایک جملے سے جان چھڑا گئے اُس دِن سے ہماری زندگی میں ہمیں ایک مثبت تبدیلی ضرور نظر آئے گی۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ
سب سے بڑا روگ
کیا کہیں گے لوگ
بس ہمیں اس روگ سے جان بخشی کروانی ہے تاکہ ہم لوگوں کی فکر کیے بِنا آگے بڑھ سکیں اور وہ سب کرسکیں جو ہمارا وجود چاہتا ہے۔ اگر بات اور کی جائے تو اس جُملے کو ذہن میں ڈالنے کا کردار ہمارے والدین بھی باخوبی نبھاتے ہیں، بچپن سے ہماری پرورش اپنی رشتہ داریوں کو دیکھ کر کی جاتی ہے کہ بیٹا تمہارا فلاں کزن وہ بن گیا ہے تم نے بھی وہی بننا ہے وگرنہ، لوگ کیا کہیں گے؟
یعنی اپنی اولاد کو مجبوراً وہ کروایا جاتا جو شاید کہ اُس کے خون میں ہی شامل نہ ہو اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان نسل اس کشمکش میں ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ نوبت تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ شادی بیاہ سے دفنانے تک کا عمل آج یہ سوچ سوچ کر کیا جارہا ہے کہ “لوگ کیا کہیں گے”۔ اس ایک جملے نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے۔
یاد رکھیے!
لوگوں کا کام ہی کہنا ہے اگر ہم یہ سوچتے رہے کہ لوگ کیا کہیں گے تو سچ میں “وہ کیا کہیں گے”؟اگر ہم یہ سوچتے رہے کہ لوگ کیا سوچیں گے تو لوگ کیا سوچیں گے؟ اُنکا کام انھیں کرنے دیں۔
جس روز ہم نے یہ سوچنا بند کردیا کہ لوگ کیا کہیں گے اُس دِن ہمارے تمام بگڑے کام بننا شروع ہوجائیں گے نہیں تو لوگوں کی فکر کرتے کرتے اپنی نسلیں برباد ہوتی جائیں گی۔