ایک صاحب کسی بستی سے گزر رہے تھے، ایک کتے نے انہیں کاٹ لیا اور انہیں سخت مشقت میں مبتلا کر دیا، ان کی تمام رات تکلیف میں گزری، وہ درد و الم سے تڑپتے رہے۔
ان کی چھوٹی سی بیٹی بھی ان کے ساتھ تھی، وہ اپنے بابا کا یوں درد سے تڑپنا برداشت نہ کر سکی۔ اور کہنے لگی: اباجان! کیا آپ کے دانت نہیں ہیں، معصوم پری کا یہ سوال سن کر باپ نے دانتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بٹیا ! یہ دیکھو، ہیں نا اور کافی مضبوط بھی ہیں، تو اس بچی نے کہا ابا جان کیا ہی اچھا ہوتا جو آپ بھی اس کتے کو کاٹ لیتے، جیسے اس نے آپ کو کاٹا ہے۔ ننھی بیٹی کی معصوم باتیں سن کر باپ مسکرا دیا اور کہنے لگا : بٹیا! ٹھیک کہا تم نے، میرے دانت تو تھے، میں کاٹ بھی سکتا تھا۔ لیکن ایک انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کتے کو کاٹے، اس لیے کہ اگر وہ اسے کاٹتا ہے تو اس کی گندگی اور نجاست کو اپنے ساتھ لگا لے گا اور ساری زندگی پھر اس سے گھن کرتا رہے گا۔
یوں ہی بعض دفعہ رویے ، رویوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ ان کا یک دوسرے سے ناگوار حالت میں آمنہ سامنہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو کاٹ بھی سکتے ہیں اور بعض دفعہ کاٹ بھی لیتے۔ لیکن کتے کے کاٹنے میں اور رویوں کے کاٹنے میں فرق ہوتا ہے۔ کتا دانتوں سے کاٹتا ہے، جبکہ رویے زبان سے کاٹتے ہیں۔کتے کے کاٹنے کااثر جسم پر ہوتا ہے، زبان کے کاٹنے کا اثر روح پر ہوتا ہے، کتے کے کاٹنے کا زخم بھر جاتا ہے،لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا۔ اسی بات کے پیش نظر حضرت علیؓ نے کیا خوب فرمایا : نیزے کا زخم تو بھر جاتا ہے، لیکن زبان کا لگا زخم نہیں بھرتا۔
زبان سے لگے زخم کا زہر بدن میں سرایت کرنے کے بجائے دماغ کے گوشوں تک پہنچ جاتا ہے اور دل کی روح کو کشمکش میں مبتلا کرد یتا ہے اور اگر ان ترش رویوں کا بیچ ”انا“ کی سر زمین پر کاشت ہو جائے تو وہاں رفتہ رفتہ لہلہاتی ہوئی زہریلی فصلیں اگ آتی ہیں۔ اس لئے اس بیچ کو جڑین مضبوط کرنے سے پہلے اکھاڑ ڈالنا ہی دل کی کھیتی کی افزائش کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک اچھے انسان کے ساتھ جب کوئی سخت رویے سے پیش آتا ہے تو معاشرہ اس کو جوابی کارروائی کرتے ہوئےکاٹنے پر ابھارتا ہے، عار دلائی جاتی ہے۔ غیرت کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ انا کو ابھاراجاتا ہے۔ لیکن ایک اچھا انسان تکلیف برداشت کر لینے کو ترجیح دیتا ہے، لیکن نامناسب حرکت سے اپنی شرافت بھری زندگی کو داؤ پر نہیں لگاتا۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ہر دفعہ رویوں کی ترش روئی کا سبب لاپر واہی نہیں ہوتا۔ ہر دفعہ ان میں سستی اور بد اخلاقی کی بو نہیں ہوتی۔ بلکہ کبھی تھکن، کبھی الجھن اور کبھی کوئی پریشانی ہوتی ہے، جس سے انسان ترش رو ہوجاتا ہے۔ اس کا لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ بھی تو انسان ہے، حوادثات زمانہ کا اثر اس پر بھی تو ہوتا ہے۔ اسے بادل نخواستہ ان اثرات کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بعض دفعہ انسانی رویہ میں تبدیلی آجاتی ہے۔ اچھا بھلا خوش اخلاق انسان مشکل حالات سے متاثر ہو جاتا ہےاور پھر اس سے کچھ ایسا سرزد ہوجاتا ہے جسے دیکھنے، سمجھنے اور محسوس کرنےوالا انسان بظاہر اخلاق سے گری ہوئی حرکت تصور کرتا۔ لیکن انسانیت کے اعلی درجہ پر فائز ایک شخص جانتا ہے کہ ہمیشہ کسی رویہ کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیشہ اس پر غیرت نہیں کھائی جاتی۔ ہمیشہ طیش میں نہیں آناہوتا بلکہ اس کڑوے گھونٹ کو آنکھیں بند کر کے پینا پڑتا ہے اور تعلق کو زندہ رکھنے کے لیے اسے بطور دوا کے برداشت کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ ہمیشہ زہر ہی کڑوا نہیں ہوتا،بلکہ کبھی کبھی دوا بھی کڑوی ہوتی ہے۔ اسے جینے کے لئے پینا پڑتا ہے۔
کیوں کہ یہ میٹھی زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔ اسی طرح رشتوں کو زندہ رکھنے کے لئے بعض دفعہ ترش رویوں کے کڑوے گھونٹ بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یوں رشتے رنجشوں کا شکار ہونے کے بجائے مضبوط بندھنوں میں بند ھ جاتے ہیں۔ زندگی کی مٹھاس برقرار رہتی ہے۔