احادیث کا مفہوم ہے کہ برائی کو اچھائی سے مٹاؤ ۔
ہمارے معاشرے میں برائیاں اس طرح پھیل چکی ہیں کہ برائی کا تصور تک مٹ گیا ہےاور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم بھی اس برائی کا حصہ ہوتے ہیں مگر تسلیم نہیں کرتے۔
برائی اچانک حملہ نہیں کرتی بلکہ بہت سکون کے ساتھ مسکراتی ہوئی آتی ہے تو ہر فرد اس کا استقبال بڑے جوش وخروش سے کرتا ہے اور ایسی دوستی نبھاتا ہے کہ وہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ لیکن جب اس کے منفی اثرات بیماری کی طرح زندگی کو دیمک کی طرح دھیرے دھیرے کھوکھلا کرنے لگتی ہے توپھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
اب لوگ سو چیں گے کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں ۔ یہی “میں نہ مانوں ” کی فطرت درحقیقت برائیوں کو پروان چڑھانے اور لاعلاج مرض کی صورت میں معاشرے میں برائیوں کوپھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
آپ خود سو چئے جب انٹرنیشنل چینل پاکستان میں متعارف کروائے گئے تو سب ایسے خوش تھے جیسے کوئی قیمتی خزانہ مل گیا ہو اور پھر کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی اور گھروں میں رہنے والی ہوں یا نوکری کرنے والی خواتین سب کے طورطریقہ ہی بدل گئے اور گھروں کا ماحول اس طرح تبدیل ہوا کہ اسلامی تہذیب واقدار چیخ چیخ کر روتی رہی مگر اس نئی تہذیب کی رونقوں میں کسی کو اس کی آواز سنائی نہ دی اور نہ ہی سسکیاں اور وہ اپنی موت آپ مرگئی۔
پھر موبائل کی دنیا آباد ہوئی اور دھیرے دھیرے اس کی بے شمار سہولتوں نے ہر شخص کو دیوانہ بنا رکھا تھا اور وہی اندھا دھند تقلید نے آج ہماری نسل کو کسی کام کا نہیں رکھا۔ بے حیائی اور برائیوں کا ایک راستہ ہموار ہوگیا کہ گھر میں رہنے والوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے بچے کس راستے پرچل پڑے ہیں۔
نئی تہذیب کی چکاچوند نے سب کو ایسا مدہوش کررکھا تھا کہ وہی مثال ہوگئی کہ ” خود اپنے گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی، عریانیت، بے حسی، لاتعلقی، خودغرضی اس طرح سرائیت کرگئی ہے کہ نہ رشتوں کا احترام باقی رہا نہ محبتیں۔
احساس نام کا جذبہ ایسی گہری نیند سوگیا ہے کہ باربا ر جگانے پر بھی نہیں جاگتا کیونکہ بے حسی اور خودغرضی کی چادر اتنی سکون بخش ہے کہ ارد گرد کی کوئی آواز سنائی ہی نہیں دیتی۔ اب سوائے صبر کے کوئی راستہ نہیں بچا۔ تو کیا ہم بے بسی سے معذوروں کی طرح اپنے گھر کو جلتا ہوا دیکھتے رہیں گے؟
ہرگز نہیں ، ہم کو اللہ نے جن صلاحیتوں کے ساتھ جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس کی جدوجہد جاری رکھنا ہی اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کیونکہ ایمان والے نہ تو بزدل ہوتے ہیں اور نہ ہمت ہارنے والے ۔ بس راستہ کا تعین درست ہونا چاہئے اور چلنے کا سلیقہ ہو تو منزل مقصود پر پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
کسی بیماری کا علاج ہو یا کسی برائی سے نجات حاصل کرنا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اللہ کوراضی کرنے کی کوشش کریں اور اس اللہ کی مدد طلب کریں پھر اپنے کام کا آغاز ہمت وحوصلہ اور استقامت کی نیت کے ساتھ کریں۔ پھر جس مقصد کے حصول کے لئے ارادہ کیا ہے اس کی اہمیت اور نفع ونقصان کو مدنظر رکھ کر پلاننگ کیجئے کیونکہ ہر کامیابی ایک بہترین جماعت کی مرہون منت ہوتی ہے اکیلا فرد کچھ نہیں کرسکتا۔
اس کے لئے اپنے بہترین اور بےمثال رہنما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات کے سنہری اصولوں پر غور وفکر کریں کہ کیسے ؟ کب؟ کیوں؟ کہاں؟ کس صلاحیت کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟سب سے پہلا اصول کہ آغاز اپنی ذات سے کیجئے۔ یعنی اپنی ذات میں ایسی صفات پیدا کیجئے جن کے ذریعے آپ کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے کے لئے خوشی کے ساتھ تیار کرسکیں۔
اللہ کی ذات وصفات پر غور وفکر کریں کہ وہ کتنا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور وہ اپنے بندوں میں بھی یہی جذبہ دیکھنا چاہتا ہےاور اس کی اہمیت کا اندازہ فرمان الہی سے لگایا جاسکتا ہے فرمایا کہ تم اہل زمین پر رحم کرو میں تم پر رحم کروں گا اور یہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ثابت ہے کہ آپ نے کفر جیسی برائی کو نفرت، حقارت، زبردستی یا ظلم وتشدد کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے کردار کی پختگی واستقامت کے ساتھ بہت صبر وتحمل اور حکمت عملی سے کام لے کر آہستہ آہستہ کفر جیسی لعنت کا خاتمہ کیا اور ایمان کی روشنی کا ایسا چراغ روشن کیا جو قیامت تک روشن رہے گا انشاء اللہ۔
ہمیں بھی سب سے پہلے اپنے گھر کی خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ مثلا اگر آپ کا بچہ ، بہن، بیوی، پہلی بار کوئی غلط حرکت کرے تو فوراً سزا دے کر اسے مزید غلطیاں کرنے پر مجبور نہ کریں۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو جس کام سے روکا جاتا ہے وہ اسی کام کو کرتا ہے اور جب وہ کام چور دروازے کے پیچھےسے کیا جائے تو جب تک ناقابل تلافی نقصان نہ ہو جائے وہ عیاں نہیں ہوتا ۔ لہذا ایسا طریقہ کار اختیار کریں کہ غلطی کا احساس بھی ہو جائے اور اس کے نقصانات سے بھی بچا جاسکے۔
بچے کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال کی سمت کا تعین کرکے ان کی رہنمائی کریں ۔ گھر کے ماحول کو دوستانہ رکھیں تاکہ ہر شخص اپنا مسئلہ بلا جھجھک آپ سے بیان کرسکے۔ برائی کو برائی کہنے سے برائی ختم نہیں ہوتی بلکہ برائی کرنے کے اسباب کو ختم کرنے سے برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی بچہ چوری کرتا ہے تو یہ معلوم کریں کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ اس کی ایسی کیا ضروریات ہیں جن کے لئے وہ اس برائی کا ارتکاب کرتا ہے ۔
بچوں کو دوستوں کی بری صحبت کے اثرات سے بچا نے کے لئے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ اسے گھر میں قید کردیں بلکہ اس کے ساتھ شفقت ومحبت کا سلوک اختیار کرکے اسے احساس دلائیں کہ آپ ہر حال میں اس کے ساتھ ہیں ۔ پھر اس کی ضروریات وشوق کو جان کر اس کو یقین دلائیں کہ آپ اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اس کی ضروریات یا شوق کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے دل میں خواہش پیدا کریں کہ کوئی ایسا کام کرے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اس کی تمام تر توجہ کسی مثبت کام کی طرف مصروف کردیں جس کا اسے شوق ہو ۔ رفتہ رفتہ وہ خودبخود اپنے آپ کو ایسے ہی کسی کام میں لگائے رکھے گا جو اس کی سوچ کوبدل دے گا ۔کوئی عورت بے حیائی یا بدکرداری کی طرف راغب ہے تو کیوں؟ وہ کیا محرکات ہیں جس نے اسے اپنی پاکیزگی و شرافت کو داؤ پر لگانے کے لئے مجبور کیا؟
اسے بد کردار یا بے حیا کہہ کر آپ پارسا اور نیک نہیں ہو جائیں گی۔ بلکہ آپ کا فرض ہے کہ ایسا راستہ اختیار کریں کہ وہ اپنی مجبوری یا عادت آپ سے کھل کر بیان کرسکے اسے پیار ومحبت سے احساس دلائیں کہ یہ راستہ تباہی وبربادی کا ہے ۔
حالات کے لحاظ سے اس کو مشورے کے ساتھ مدد کرنے کی بھی کوشش کریں تاکہ اسے احساس ہو کہ کوئی دوسرا بھی اس کی تکلیف اور پریشانی میں اس کے ساتھ ہے ۔ یہی احساس ، یہی جذبہ برے سے برے انسان کو بھی اپنی غلطی کا احساس دلا سکتی ہے ۔جب تک ہم برائیوں کاعملی طور پر سدباب نہیں کریں گے برائیاں پھیلتی ہی رہیں گی۔ برے کو برا کہنے سے برائی پھیلائی تو جاسکتی ہے مٹائی نہیں جا سکتی لہذا ہمیں پہلے اپنی ذات اور پھر اپنے گھروں کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کرنی چائیے معاشرہ خودبخود برائیوں سے پاک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔