طلباء اور سیاست

ترا شباب امانت ہے ساری دنیا میں

تو خارزار جہاں میں گلاب پیدا کر

  موجودہ دور میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک اور قوم کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ اس مقام عروج پر پہنچنے میں اس قوم وملک کے نوجوانوں اور طلباء کی قربانیوں کی ایک لازوال داستان شامل ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کے لیے طلباء ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی نوجوان طلباء ہی کسی ملک و قوم کے تابناک مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں۔ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو کوئی بھی آپ کی اس بات سے اختلاف کرنے سے قاصر ہے کہ جس ملک و قوم کے طلباء و نوجوان غیر ذمہ دار اور لاپرواہ ہوں ان کے اندر اخلاقی، سماجی، معاشی و معاشرتی اعتبار سے اور دیگر شعبہ ہاۓ زندگی کے متعلق شعور نہیں تو وہ قوم کے مستقبل کو تاریک کر دیتے ہیں یوں وہ ملک و قوم اپنا نام و نشان یعنی شناخت اور مقامی حیثیت کھو بیٹھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؔ نے کہا تھا

؎ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی

ہو جس کے جوانوں کی خُودی صورتِ فولاد

جوانی کی عمر ہی ایسا وقت ہوتا ہے کہ جس میں انسان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر سکتا ہے چنانچہ روشن مستقبل اور انقلاب کی نوید سننے کے لیے لازم ہے کہ نوجوان اپنے اندر کم ہمتی کی بجاۓ ہمت پیدا کرے اور اپنے اندر غیرت و حمیت پیدا کرے یہی اصل دولت ہے۔ بقول اقبالؔ

؎ گَر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیّور

قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

    اس سرزمین پر ایک خوشگوار انقلاب لانے کے لیے طلباء میں سیاست کو پروان چڑھانا ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انقلاب میں طلباء تحریکوں کا کردار مرکزی حیثیت سے بھی ہو سکتا ہے اور ابتدائیہ  کردار تو لازمی ہوتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ ہی اٹھا کر دیکھیں تو سامراج کے خلاف بغاوت کا ایک بڑا حصہ یہی طلباء ہی تو تھے مثلاً “HSRA”(ہندوستان سوشلسٹ انقلابی فوج) نام سے ایک تنظیم کا نام ملے گا۔ یوں اس وقت سے لے کر آزادی کی طویل داستان میں جن  بھی انقلابات نے جنم لیا ان میں طلباء کا کردار لازوال اور بے مثال ہے۔ اسی طرح آزادی کے ایوبی آمریت کے خلاف 1964 میں ایک انقلابی تحریک نے جنم لیا جو طلباء مطالبات پہ مشتمل تھی۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ طلباء میں معاشرے کے ہر قسم کے طبقے کی نمائندگی موجود ہوتی ہے خواہ محنت کش طبقہ ہے یا متوسط طبقہ۔ یہی وہ واحد پلیٹ فارم ہوتا ہے جس سے ہو کر طلباء سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام، آمریت اور ظلم و استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے میدان میں نکلتے ہیں۔

سارے نظام میں جدّت کے سبب ہمارے طلباء کو وسائل کی کمی کی وجہ سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے اگرچہ دعوی کیا جاتا ہے کہ تعلیم برابر فراہم کی جاتی ہے لیکن درحقیقت اس طبقاتی نظام تعلیم نے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کر کے رکھ دیا۔

 کیپیٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور آمریت کی وجہ سے آزادی سے لے کر آج تک معاشرہ ظلم و ستم کا شکار ہے۔ ظلم، استحصال اور طبقاتی نظام کے خلاف اس وقت طلباء ہی کی قوت ہے جو بغاوت کر کے انقلاب لا سکتی ہے۔ آج طلباء تنظیموں پر پابندی لگا کر سرمایہ دارانہ اور ظالم طبقہ اپنی طاقت کے نشہ میں چور  طلباء جو کہ کس ملک و قوم کی ترقی میں مرکزی کردار ہوتے ہیں، مساوی نظام تعلیم طلباء کا بنیادی حق ہے۔ طلباء کے حقوق کا تحفظ ریاست پر فرض ہے۔

آج چند لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ طلباء کا سیاست سے تعلق کیسے ہے؟ ان کو پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ طلباء سیاست سے مراد سیاسی آئین و منشور اور آئینی دائروں میں رہتے ہوئے طلباء کے بنیادی حقوق و حصول تعلیم کے لیے کوشش کرنا ہے۔ طالب علم اور سیاست ان میں وابستگی بہت سے اعتبار سے اپنے ثبوت پر مکمل ٹھوس دلائل رکھتی ہے۔ سیاست کسی بھی معاشرے میں ہونے والی تمام زندگی کی روزمرہ سرگرمیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔ یوں طلباء کا اپنی فیس وغیرہ ٹرانسپورٹ، مساوی نظام تعلیم اور طبقاتی نظام تعلیم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا بھی سیاست ہے جو کہ سیاسی آئین و دائرے کا حصہ ہے۔

 لہذا یہ کسی بھی اعتبار سے غیر قانونی نہیں ہو سکتا۔ طلباء سیاست کا مقصد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلباء حقوق کا تحفظ اور عوامی حلقوں میں سیاسی شعور اور علم کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ قومی مسائل کو منظر عام پر لانا, کرپٹ سرمایہ دار، جابر اور آمر حکومت اور اداروں کے خلاف آواز اٹھانا اور طلباء کو ایک متفقہ پلیٹ فارم پر لانا ہے یہ سب وہ کام ہیں جو طلباء سیاست کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی کی بدولت آگے چل کر یہی سیاسی شعور رکھنے والا نوجوان قوم و ملک اور معاشرے کی بہتر ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ آج کا یہ دور اس بات کا متقاضی ہے کہ طلباء میں سیاسی شعور کو اجاگر کیا جاۓ۔ طلباء میں  نظریاتی و سیاسی پختگی کو اساس بنایا جائے۔ یہی اساس آگے چل کر انقلابات جنم لے گی اور ظلمت بھری رات ختم ہوگی، سحر ہوگی اس طرح ایک سیاسی شعور رکھنے والا طالب علم ایک چراغ کی مانند جل رہا ہوتا ہے جو بُجھ جائے تو سَحر نُما ہوتا ہے اور انقلاب کی نوید ہوتا ہے چنانچہ اس کا اعلان ہوتا ہے

؎ کام ہے میرا تغیّر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب