اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس وبائی صورتحال ،تنازعات ،موسمیاتی مسائل اور غربت جیسے مسائل کی بناء پر پندرہ کروڑ سے زائد لوگوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پچپن ممالک میں صورتحال کے جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو کروڑ سے زائد لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں بھوکا رہنا پڑا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک شدید طور پر متاثر ہوئے ہیںجہاں تنازعاتنےتقریباًدس کروڑافراد کوخوراک کےشدیدعدم تحفظ کی جانب دھکیل دیا، اقتصادی بد حالی کے باعث چار کروڑ افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا رہا جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد بھی ڈیڑھ کروڑ سے زائد رہی ہے۔
اس صورتحال میں خوراک کے تحفظ کو کلیدی اہمیت حاصل ہو چکی ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ مختلف ممالک میں خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ عوام میں بھی خوراک کے تحفظ کا شعور بیدار ہو رہا ہے۔
ابھی حال ہی میں چینی قانون سازوں نے کھانے کے ضیاع کے خلاف ایک قانون کی منظوری دی ہے۔ یہ قانون کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لئے ایک طویل المدتی میکانزم کے قیام میں مدد کے لئے تیار کیا گیا ہے جس سے قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔یہ امر افسوسناک ہے کہ چین کی شہری کیٹرنگ انڈسٹری میں ہر سال لگ بھگ 18 بلینکلو گرام خوراکضائع ہو جاتی ہے جبکہ 35 ارب کلوگرام اناج اسٹوریج ، نقل و حمل اور پروسیسنگ سمیت دیگر مراحل میں ضائع ہو جاتا ہے۔
چین کی سالانہ اناج کی پیداوار 13 ویں پانچ سالہ منصوبے (2016-2020) کے دوران لگاتار پانچ سالوں میں 650 ملین ٹن سے زائد رہی ہے۔اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ چین اپنی 1.4 ارب آبادی کے لئے خوراک کےتحفظ کو یقینی بنانے میں ہر اعتبار سے خودکفیل ہے ، تاہم اس کے باوجود چین غذائی تحفظ کو قومی سلامتی کا ایک اہم ستون قرار دیتا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ خوراک کے تحفظ کو قانونی ضمانت فراہم کی جا سکے۔
خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے وضع کیے جانے والے قانون میں مختلف فریقوں کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ریستوران ایسے صارفین سے ڈسپوزل فیس وصول کرسکتے ہیں جو ضرورت سے زیادہ مقدار میں کھانا ضائع کرتے ہیں۔اسی طرح ایسے صارفین پر 10،000 یوآن (تقریباً 1،546 امریکی ڈالر) تک جرمانہ عائد کیا جائے گا جو کھانے پینے کے ضیاع کا باعث بننے یا گمراہ کن طرز عمل کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔
چین میں اس قانون کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ معاشرے میں سادگی کے فوائد سے متعلق معاشرتی شعور کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی ، جو ہمیشہ سے چینی قوم کی روایتی خوبی رہی ہے۔سادہ طرز زندگی چینی عوام کا خاصہ ہے اور یہ جھلک تمام شعبہ ہائے زندگی میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
اس وقت چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ماہرین کے نزدیک بہت جلد چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اقتصادی میدان میں اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہو جائے گا۔معاشی اعتبار سے چین اعلیٰ درجے کی ترقی پر گامزن ہے ،وہاں دوسری جانب سماجی اعتبار سے تحفظ خوراک جیسے قانون کا مضبوط اورمعقول نفاذ ، گرین طرز زندگی اور کھپت کے بہتر طرز عمل کو فروغ دینے میں بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
ایسے رویے وسائل کے تحفظ اور ماحول دوست معاشرے کی تعمیر کے لئے بھی نہایت ضروری ہیں۔پاکستان جیسے ممالک جہاں خوراک کے تحفظ اور اناج کی پیداوار سے متعلق بدستور مسائل موجود ہیں ،چین سے سیکھتے ہوئے عملی اقدامات اپنا سکتے ہیں اور بطور زرعی ملک خوراک میں خودکفالت کی جستجو کر سکتے ہیں ، مگر ٹھوس عمل شرط اول ہے۔