رمضان کا با برکت مہینہ شروع ہوتا ہے اور وہ مہینہ جس میں مغفرت کا وعدہ ہے اور اس مہینے وہ ایک رات جس میں عبادت ہزار مہینے کے برابر ہے۔ جس نے اس کو پا لیا گویا اس کو گوہر نایاب مل گیا،رمضان کی جب طاق راتیں آتی ہیں تو ذہن بے اختیار ماضی کے دریچوں میں چلا جاتا ہے۔
گیارہ سال کی عمر سے لیکر 23 سال تک کی ان طاق راتوں کی عبادات یاد آ جاتی ہیں کیسے ان راتوں کی تیاری ہوتی تھی شام سے چھتوں کی دھلائی شروع ہوجاتی اور رات میں پھوپھی، خالائیں اور پڑوس کی ہمجولیاں آجاتی۔بہت رونق ہوتی قرآن پاک منزل سے ختم کیے جاتے نفل پڑھنے میں ایک دوسرے سے بازی لگتی کہ کسی طرح اللہ کو راضی کرلیں اپنے رب کی ایسی خالص عبادت جس میں میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرنا کہ اے اللہ میاں خاندان میں میں فلاں فلاں کی لڑائی ہوگئی ہے ان کی دوستی کرا دے کیونکہ سورہ الحجرات کی آیت ہمیشہ ذہن میں رہتی”مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو،امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا-“
بھائی لوگ مسجد میں عبادت کرتے اور اگر کبھی آجاتے تو کہتے کہ ہمارے لیے بھی دعا کرنا کہ اللہ ہماری وہ دعا قبول کر لیں ،دعائیں بھی کتنی معصوم ہوتی تھی اس دور کی۔اس یکسوئی سے اپنے رب کی پوری پوری رات عبادت ہوتی کہ ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے وہ سن رہا ہے روح ایک عجیب ہی نشے سے سرشار ہوتی” خیال ہوتا کہ جبرائیل امین فرشتوں کی قطار در قطار کے ساتھ اتر رہے ہیں ،وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک”۔
اس طاغوتی دور میں کیا آج ہمارے بچوں کی ان طاق راتوں میں یہ کیفیت ہے یا اللہ میرے ملک میں ایسا اسلامی ماحول دیں کہ روح پھر ان راتوں میں سرشار ہو کہ”جبرائیل امین آرہے ہیں اور ہماری دعائیں قبول ہورہی ہیں۔ اے اللہ یہ دن مسلمانوں کو دوبارہ دیکھادے۔